شفیق آصف اردو ادب، صحافت اور خودنوشت نگاری کے معتبر اور صاحبِ اسلوب نام ہیں جنہوں نے نہ صرف اردو نثر کو انفرادی اسلوب بخشا بلکہ صحافتی روایت میں بھی گراں قدر اضافہ کیا۔ ان کی تحریریں جہاں مشاہدے کی گہرائی رکھتی ہیں، وہیں ادبی شعور، فکری ژرف نگاہی اور سماجی بصیرت کا مظہر بھی ہیں۔ وہ ایک ایسے لکھاری تھے جنہوں نے ادب اور زندگی کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا۔ ان کی تحریروں میں جہاں ایک بےباک مشاہدہ کار کی جھلک نظر آتی ہے، وہیں ایک حساس اور بیدار فکری ادیب کی آواز بھی سنائی دیتی ہے۔
ان کی مشہور خودنوشت “رتجگوں کی چاندنی“ اردو ادب کی خودنوشت نگاری میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔ یہ کتاب صرف ذاتی تجربات کا مجموعہ نہیں بلکہ اردو صحافت، سیاست، ادبی تحریکوں اور سماجی نشیب و فراز کا بھرپور آئینہ ہے۔ شفیق آصف نے اردو کے بڑے ادبی اور صحافتی مراکز، جیسے لاہور، کراچی، اسلام آباد وغیرہ میں بطور ایڈیٹر اور صحافی نمایاں خدمات انجام دیں۔ ان کی تحریریں بےساختہ، بامعنی اور سچائی پر مبنی ہوتی تھیں۔
انہوں نے اردو صحافت میں اس وقت کام کیا جب آزادی کے بعد پاکستان صحافتی بحرانوں اور نظریاتی کشمکشوں سے گزر رہا تھا۔ ان کی تحریروں میں سنجیدگی، طنز، شگفتگی، فکری گیرائی اور تاریخی شعور پایا جاتا ہے۔ شفیق آصف کی نثر نہ صرف ادبی ہے بلکہ صحافتی بصیرت سے بھی لبریز ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت اردو نثر کے سنجیدہ مطالعے کے لیے ایک اہم حوالہ بن چکی ہے۔
اردو نثر میں ادبی خود نوشت نگاری ایک اہم اور معتبر صنف کی حیثیت رکھتی ہے، جو محض سوانح یا سادہ سوانحی خاکہ نہیں ہوتی بلکہ اس میں ادیب نہ صرف اپنی شخصیت، تجربات اور مشاہدات کو بیان کرتا ہے بلکہ عہد، معاشرت، تہذیب اور ادبی منظرنامے کو بھی مؤثر انداز میں رقم کرتا ہے۔ شفیق آصف کی خود نوشت “رتجگوں کی چاندنی“ اس روایت کی ایک قابلِ ذکر اور اہم کڑی ہے۔ یہ خود نوشت محض ایک ذاتی تاریخ نہیں بلکہ بیسویں صدی کی اردو صحافت، ادب، سیاست، سماج، اور تہذیب کا آئینہ بھی ہے۔
شفیق آصف اردو کے ممتاز صحافی، ادیب، نقاد اور صاحبِ طرز نثرنگار تھے۔ وہ بیک وقت کئی حوالوں سے اردو ادب و صحافت میں متحرک رہے۔ ان کی نثر کا سب سے قوی پہلو اس کی شفافیت، برجستگی اور محاورہ بندی ہے۔ انہوں نے نہ صرف سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کو اپنی نثر کا حصہ بنایا بلکہ اپنے عہد کے ادبی رویوں، شخصیات، تحریکوں اور اداروں کا بھرپور مشاہدہ اور تجزیہ بھی کیا۔
شفیق آصف کی خودنوشت کا عنوان ہی شعریت اور علامتی معنویت سے بھرپور ہے۔ “رتجگوں کی چاندنی” گویا ایک ایسا منظرنامہ ہے جہاں جاگتے ضمیروں، حساس مشاہدات اور بیدار شعور کی روشنی موجود ہے۔ یہ کتاب محض ماضی کی بازیافت نہیں بلکہ ایک فکری ردعمل بھی ہے جو معاشرتی، ادبی اور صحافتی رویوں پر نقد بھی کرتا ہے اور سوال بھی اٹھاتا ہے۔
ان کا اسلوب سادہ، مگر پُراثر ہے۔ وہ زبان کے جمالیاتی پہلو کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی تحریر میں نکتہ آفرینی، شگفتگی، اور ادبی رنگ پیدا کرتے ہیں۔ ان کی نثر میں نہ تصنع ہے نہ ہی مبالغہ۔ شفیق آصف نے سچائی کو بیان کرنے میں کسی مصلحت سے کام نہیں لیا، یہی ان کی تحریر کی صداقت ہے۔
“رتجگوں کی چاندنی” میں شفیق آصف کا بیانیہ یک رخی نہیں بلکہ وہ بیک وقت شخصی، ادبی، تہذیبی، سیاسی اور صحافتی شعور کو منعکس کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے اہم مراحل کو ترتیب وار اور دیانت داری سے بیان کیا۔ وہ ایک خاموش مشاہدہ کار کے بجائے ایک متحرک کردار کے طور پر خود کو پیش کرتے ہیں۔ ان کی خود نوشت میں ذاتی واقعات سے زیادہ وہ مشاہدات اہم ہیں جن کے ذریعے وہ عہد کی سچائیوں کو بیان کرتے ہیں۔
انہوں نے صحافتی دنیا کے پسِ پردہ معاملات، اہلِ قلم کی دنیا کے داخلی جھگڑوں، ادبی اداروں کے تضادات اور تخلیقی بحران کو نہایت باریک بینی سے پیش کیا ہے۔ مثال کے طور پر، وہ بعض مشہور ادبی شخصیات کے شخصی تضاد، ادبی حسد، اور صحافت میں نظریاتی تقسیم پر بڑی بےباکی سے گفتگو کرتے ہیں۔
- شفیق آصف نے کئی ادبی شخصیات سے تعلق اور ان کے ساتھ بیتے ہوئے واقعات کو بیان کیا ہے، جن میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، شورش کاشمیری، چراغ حسن حسرت وغیرہ شامل ہیں۔ وہ ان شخصیات کی زندگی کے غیر رسمی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں، جو عمومی طور پر قارئین سے اوجھل رہتے ہیں۔
- شفیق آصف نے صحافت میں اپنے تجربات، ادارتی کردار اور اخبار نویسی کے نشیب و فراز کو تفصیل سے بیان کیا۔ اس ضمن میں وہ صحافت کے غیر تحریری ضابطوں، ادارتی پالیسیوں، اور اخبارات کے معاشی و نظریاتی دباؤ کو بھی بیان کرتے ہیں۔
- انہوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین، حلقہ اربابِ ذوق، مجلس ترقی ادب، اور دیگر ادبی اداروں کی فعالیت اور کمزوریوں پر کھل کر اظہار کیا ہے۔ ان کا انداز تنقیدی ہونے کے باوجود متوازن اور انصاف پر مبنی ہے۔
- “رتجگوں کی چاندنی” میں صرف ادبی فضا ہی نہیں بلکہ تقسیمِ ہند کے بعد کے سیاسی و سماجی انتشار، مارشل لاء، سنسرشپ، نظریاتی ٹکراؤ، اور پاکستان کی داخلی سیاست پر بھی تاثراتی انداز میں اظہار کیا گیا ہے۔
“رتجگوں کی چاندنی” صرف ذاتی خاکہ نہیں بلکہ اس میں شفیق آصف نے اجتماعی شعور کو بھی جگہ دی ہے۔ ان کی خودنوشت نوآبادیاتی، مابعد نوآبادیاتی اور جدید اردو شعور کی ہم عصر نمائندگی کرتی ہے۔
ان کا بیانیہ اسلوبیاتی اعتبار سے فطری اور غیر جذباتی ہے، لیکن جگہ جگہ وہ قاری کو چونکا دیتے ہیں۔ اس میں طنز کی ہلکی سی جھلک، سچائی کی کڑواہٹ اور یادداشت کی گہرائی شامل ہے۔
“رتجگوں کی چاندنی” اردو خودنوشت ادب میں ایک اہم اضافہ ہے۔ شفیق آصف نے نہ صرف اپنی زندگی بلکہ اپنے عہد کے فکری، ادبی، اور صحافتی اتار چڑھاؤ کو اپنی یادداشتوں کے آئینے میں سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کا اسلوب، مشاہدہ اور تجربہ اس کتاب کو محض ایک ذاتی داستان سے بلند کر کے ایک عہد کی تاریخ بنا دیتا ہے۔ اس خود نوشت کا مطالعہ نہ صرف اردو ادب کے سنجیدہ قاری کے لیے اہم ہے بلکہ محققین، نقادوں اور صحافت سے وابستہ افراد کے لیے بھی خاص دلچسپی رکھتا ہے۔