کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

ذرائع ابلاغ اور شاعری صحافتی قطعہ نگاری کے موضوعات اور اسالیب کا تقابلی مطالعہ

اردو زبان میں شاعری صرف ایک فنی اظہار نہیں، بلکہ یہ ایک تہذیبی، فکری اور معاشرتی عمل بھی ہے۔ جہاں شاعری جذبات، احساسات اور روحانی کیفیات کی عکاسی کرتی ہے، وہیں یہ معاشرتی مسائل، سیاسی حالات اور سماجی رویوں کی نمائندگی کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ اردو شاعری میں قطعہ نگاری کی روایت قدیم ہے، لیکن جب اس صنف کو ذرائع ابلاغ سے ہم آہنگ کیا گیا تو اس نے صحافتی قطعہ نگاری کی صورت اختیار کی، جو عصرِ حاضر کے حالات و واقعات کو شاعرانہ انداز میں بیان کرتی ہے۔ اس مضمون میں ہم قطعہ نگاری اور اس کے صحافتی پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں، اور مختلف ادوار میں اس کے موضوعات و اسالیب کا تقابلی مطالعہ پیش کرتے ہیں۔

قطعہ، اردو شاعری کی مختصر اور جامع صنف ہے جس میں چار مصرعوں کے ذریعے کسی اہم بات کو بیان کیا جاتا ہے۔ یہ صنف عموماً طنز، مزاح، تنقید، اصلاح یا وعظ کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہے۔ قطعہ میں اختصار اور جامعیت کے ساتھ گہرے مفاہیم اور مؤثر اظہار کی خاصیت پائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ صحافت نے اس صنف کو اپنے بیانیے کا حصہ بنایا۔

اردو اخبارات میں قطعہ نگاری کی روایت انیسویں صدی میں پروان چڑھی۔ مولانا ظفر علی خان کو اس صنف کا بانی تصور کیا جاتا ہے جنہوں نے روزنامہ زمیندار کے لیے سیاسی، مذہبی اور سماجی موضوعات پر مختصر اشعار لکھے۔ ان کے بعد حبیب جالب، احمد ندیم قاسمی، انور مسعود، ڈاکٹر یونس بٹ جیسے شعرا نے اس روایت کو مزید وسعت دی۔

ذرائع ابلاغ، جیسے کہ اخبارات، ریڈیو، ٹیلی ویژن، اور اب سوشل میڈیا، معلومات کی ترسیل کے اہم ذرائع ہیں۔ یہ ادارے عوام کی رائے سازی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ دوسری طرف شاعری، خاص طور پر قطعہ نگاری، احساسات اور خیالات کو نہایت مؤثر اور جمالیاتی انداز میں پیش کرتی ہے۔ جب ان دونوں کا امتزاج ہوتا ہے تو ایک صحافتی شعری اظہار وجود میں آتا ہے جو نہ صرف معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ اس پر قاری کی رائے بھی مرتب کرتا ہے۔

صحافتی قطعہ نگاری کے ذریعے کسی بھی سیاسی یا سماجی مسئلے کو مختصر، جامع اور بلیغ انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس میں:

  • عوامی مسائل کی فوری عکاسی ہوتی ہے۔
  • طنز و مزاح کے ذریعے توجہ حاصل کی جاتی ہے۔
  • ادبی اسلوب کے ساتھ خبر یا رائے کو خوش ذوقی سے بیان کیا جاتا ہے۔
  • رائے سازی کے عمل میں نرمی اور شائستگی کا پہلو شامل ہوتا ہے۔

یہی وجوہات ہیں جن کی بنا پر صحافت میں قطعہ نگاری ایک مستقل مقام رکھتی ہے، خاص طور پر ادارتی صفحات، مزاحیہ کالموں اور سیاسی طنز میں۔

صحافتی قطعہ نگاری کے موضوعات وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ ذیل میں مختلف ادوار کے لحاظ سے چند اہم موضوعات کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے:

انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے اوائل میں صحافتی شاعری کا مرکز برطانوی استعمار، آزادی کی تحریک اور قومی تشخص تھا۔ مولانا ظفر علی خان کے قطعات وطن دوستی، خودی اور حریت فکر کے جذبات سے لبریز ہوتے تھے:

ہندوستان کی مٹی سے ہے پیغامِ آزادی
یہ گونجتا ہے ہر ذرّے کی آواز میں

قیام پاکستان کے بعد سیاسی عدم استحکام، فوجی آمریت اور عوامی محرومیوں پر مبنی موضوعات نے قطعہ نگاری میں جگہ پائی۔ حبیب جالب نے جمہوریت اور عوامی حقوق کی ترجمانی کی:

دیپ جس کا محلات میں جلے
چند لوگوں کی خوشی کے لیے ہے

مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور طبقاتی تقسیم جیسے مسائل پر بھی صحافتی قطعہ نگاری میں اظہار پایا جاتا ہے۔ انور مسعود جیسے شعراء نے طنز و مزاح کے ذریعے ان مسائل کی طرف اشارہ کیا:

بیوی کہے کہ آلو مہنگے
شوہر کہے چلو پھر رہنے دو

فلسطین، کشمیر، افغانستان، عراق، اور حالیہ دور میں فلسطین و یوکرین جیسے موضوعات پر بھی صحافتی شاعری ہوئی ہے۔ اس میں ایک طرف انسانیت سوز مظالم کی عکاسی ہے تو دوسری طرف عالمی ضمیر کی بے حسی پر طنز بھی شامل ہوتا ہے۔

مذہب کا سیاسی استعمال، فرقہ واریت، اور اخلاقی زوال پر مبنی موضوعات بھی اس صنف میں زیرِ بحث آتے ہیں۔ اس طرح کی شاعری اصلاحی نوعیت کی ہوتی ہے جس میں سادہ اور مؤثر انداز اختیار کیا جاتا ہے۔

قطعہ نگاری کے اسالیب وقت کے ساتھ ارتقاء پذیر رہے ہیں:

ابتدائی دور میں قطعہ نگاری سنجیدہ انداز میں کی جاتی تھی جس میں الفاظ کا چناؤ فصیح اور محاورہ زدہ ہوتا تھا۔

بعد میں طنز و مزاح کے ذریعے معاشرتی تنقید کا رجحان بڑھا۔ انور مسعود، خالد مسعود، اور ڈاکٹر یونس بٹ کے قطعات اس کی بہترین مثال ہیں۔

بعض شعرا نے علامتوں اور استعاروں کے ذریعے سیاسی و سماجی مسائل کی نشاندہی کی، جیسے “تخت و تاج”، “اندھیرا”، “چراغ”، “دھوکہ” وغیرہ۔

سوشل میڈیا کے دور میں قطعہ نگاری نے فیس بک پوسٹس، ٹویٹس اور ویڈیوز میں جگہ پائی۔ یہاں اسالیب میں مزید اختصار، فوری اثر اور عام فہم زبان کا استعمال بڑھ گیا۔

اردو اخبارات نے صحافتی شاعری کو باقاعدہ جگہ دی۔ نوائے وقت، جنگ، امروز، نئی بات جیسے اخبارات نے وقتاً فوقتاً قطعے اور شعری کالم شامل کیے۔ ٹی وی چینلز نے طنز و مزاح پر مبنی پروگراموں میں قطعات کو شامل کر کے اس صنف کو نئی وسعت دی۔

اسی طرح کئی صحافتی کالم نویس خود بھی شاعر تھے، یا شعرا سے قطعات لکھواتے تھے۔ اس کا مقصد قارئین کو سنجیدہ مسائل سے متعارف کرانا تھا لیکن تفریح، نرم لہجہ اور مؤثر انداز کے ذریعے۔

صحافتی قطعہ نگاری ایک کامیاب ادبی تجربہ ہے جس نے شاعری کو زندہ معاشرتی فریم میں ڈھالا۔ تاہم کچھ نقاد اسے ادبی اعتبار سے کم تر درجے کی صنف قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں فنی گہرائی اور جمالیاتی پیچیدگی نسبتاً کم ہوتی ہے۔ لیکن اس کے اثر، ابلاغ اور اثر پذیری کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ذرائع ابلاغ اور شاعری، خصوصاً صحافتی قطعہ نگاری کا امتزاج اردو زبان و ادب کا ایک زندہ اور متحرک پہلو ہے۔ یہ صنف سیاسی شعور، سماجی آگہی، قومی وحدت اور فکری بیداری کا ذریعہ ہے۔ یہ محض چار مصرعوں پر مشتمل ایک نظم نہیں، بلکہ ایک مکمل بیانیہ ہوتا ہے جو دل کو چُھو جاتا ہے، سوچ کو جنجھوڑتا ہے، اور ایک نرم مگر مؤثر احتجاج بن کر ابھرتا ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں