Logo

کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

دھنپت رائے پریم چند کے افسانوں میں  کرداروں کے جارحانہ ردعمل  اور منفی رویوں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ

دھنپت رائے پریم چند کے افسانوں میں کرداروں کے جارحانہ ردعمل اور منفی رویوں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ہمیں اس حقیقت سے روشناس کراتا ہے کہ ان کے افسانے محض کہانیاں نہیں بلکہ سماجی، نفسیاتی اور معاشرتی حقیقتوں کا آئینہ ہیں۔ پریم چند نے برطانوی استعمار، جاگیردارانہ نظام، ذات پات کے امتیازات، غربت، ناانصافی اور استحصال جیسے عوامل کو اپنی تحریروں میں اجاگر کیا، جس کے نتیجے میں ان کے کردار اکثر جارحانہ ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں دکھایا گیا ہے کہ جب انسان شدید دباؤ، ناانصافی اور ظلم کا شکار ہوتا ہے تو اس کا رویہ اکثر منفی، مزاحمتی یا جارحانہ ہو جاتا ہے۔ ان کے کرداروں میں باغیانہ طرزِ عمل، غصہ، انتقام، مایوسی، اور بغاوت جیسے جذبات عام نظر آتے ہیں، جو اس وقت کے ہندوستانی سماج کے بحرانوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ افسانے “کفن”، “پوس کی رات”، “نمک کا داروغہ” اور “سوا سیر گیہو” میں ہمیں ایسے کردار ملتے ہیں جو یا تو ظلم سہنے کے بعد شدت پسند رویہ اختیار کرتے ہیں یا پھر مایوسی میں اپنی اقدار سے ہی روگردانی کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر “کفن” میں غریب مزدور کردار مادھو اور گھسیو کا رویہ ظاہری طور پر سنگدل اور غیر انسانی معلوم ہوتا ہے، لیکن درحقیقت یہ جاگیردارانہ اور استحصالی نظام کے خلاف ایک خاموش احتجاج ہے۔ اسی طرح “پوس کی رات” میں ہلکارو کی جدوجہد، استحصال اور بے بسی اسے اس حد تک لے جاتی ہے کہ وہ ایک نفسیاتی کیفیت میں مبتلا ہو کر زمین اور قدرت سے ہی مقابلہ کرنے لگتا ہے۔ پریم چند نے ان کرداروں کے ذریعے اس وقت کے ہندوستانی سماج کی ناانصافیوں، طبقاتی کشمکش اور عام آدمی کے اندر پنپنے والی بے بسی اور بغاوت کو نہایت حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا۔ وہ یہ دکھاتے ہیں کہ جب ایک شخص مسلسل ظلم اور استحصال کا شکار ہوتا ہے تو اس کا ردعمل جارحانہ ہو سکتا ہے، اور وہ اپنے ہی جذبات اور سماجی اقدار سے دور ہو سکتا ہے۔ یہ تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ پریم چند کے کردار محض تخیلاتی نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہیں، جو اس وقت کے ہندوستانی معاشرے کے اندرونی انتشار اور نفسیاتی کشمکش کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں