دبستان لکھنو اردو ادب کے ایک اہم مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے، جہاں شعری و نثری دونوں اصناف کو غیر معمولی فروغ ملا۔ دبستان لکھنو کے داستانی ادب کا ارتقاء انیسویں صدی میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچا، جب داستان گوئی کو عوامی دلچسپی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز بنایا گیا۔ داستانی ادب، بالخصوص “داستان امیر حمزہ” اور “طلسم ہوشربا” جیسے شاہکار، لکھنو کی ادبی فضاء میں تخلیق ہوئے۔ ان داستانوں میں تخیل کی وسعت، زبان کی لطافت، اور کرداروں کی رنگا رنگی نے اردو داستان کو ایک منفرد ادبی مقام عطا کیا۔ لکھنو کے داستان گوؤں نے روایتی کہانیوں میں مقامی رنگ، تہذیبی عناصر، اور تصوف کی چاشنی شامل کی، جس نے ان کہانیوں کو زیادہ دلکش اور مقبول بنایا۔لکھنو کے داستانی ادب کا ارتقاء اس وقت رکنے لگا جب ناول کی صنف نے اردو نثر میں اپنی جگہ بنائی، لیکن ان داستانوں کا ادبی اور تاریخی مقام آج بھی برقرار ہے۔ ان کا مطالعہ اردو نثر کی ابتدائی ترقی اور عوامی ذوق کی عکاسی کے لیے نہایت اہم ہے۔