کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

خش وخاشاک زمانے کا تاریخی تجزیہ

مستنصر حسین تارڑ کا ناول “خش و خاشاک زمانے” اردو ادب میں ایک ایسا فکشنل بیانیہ ہے جو پاکستان کی تاریخ، سیاست، سماج اور انسانی شعور کے اندر پنہاں تضادات کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ ناول محض ایک فرد کی زندگی کا قصہ نہیں بلکہ پورے عہد کی داستان ہے۔ اسے پاکستان کی سیاسی تاریخ، طبقاتی تقسیم اور فکری زوال کے آئینے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر اسے تاریخی تجزیے کے زاویے سے پرکھا جائے تو “خش و خاشاک زمانے” دراصل بیسویں صدی کے آخری حصے میں پاکستانی سماج کی روح کی کھوج ہے — ایک ایسا سماج جو آزادی کے خواب سے لے کر آمریتوں، جنگوں، اور فکری بحرانوں تک کئی اتار چڑھاؤ سے گزرا۔

ناول کی کہانی ایک عام مگر حساس کردار کے گرد گھومتی ہے جو اپنے تجربات کے ذریعے پورے عہد کی شکست و ریخت کو محسوس کرتا ہے۔ اس کردار کے وسیلے سے مصنف نے قیامِ پاکستان کے بعد کی سیاسی ناانصافی، بدعنوانی، مذہبی منافقت، طبقاتی ناہمواری، اور معاشرتی زوال کو نہایت حقیقت نگاری سے پیش کیا ہے۔ “خش و خاشاک زمانے” کا تاریخی پس منظر 1947ء سے لے کر ضیاء الحق کے دورِ آمریت تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب پاکستان میں جمہوریت بار بار کمزور ہوئی، فوجی حکومتیں مسلط ہوئیں، اور معاشرہ دو انتہاؤں — مذہبی شدت پسندی اور مغربی تقلید — کے درمیان جھولتا رہا۔

تاریخی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو “خش و خاشاک زمانے” محض ایک ادبی متن نہیں بلکہ پاکستان کی اجتماعی یادداشت ہے۔ ناول میں آزادی کے بعد کے خوابوں کے بکھرنے، طبقاتی نظام کے استحکام، اور عوامی محرومیوں کا نوحہ موجود ہے۔ مستنصر حسین تارڑ نے اپنے مخصوص بیانیے میں وہ سب دکھایا ہے جو تاریخ کی کتابوں میں اکثر حذف کر دیا جاتا ہے۔ ان کے کردار تاریخ کے دبے ہوئے صفحوں سے ابھرتے ہیں، اور قاری کو اس حقیقت سے آشنا کرتے ہیں کہ قومیں صرف نعروں سے نہیں بنتیں بلکہ شعور، انصاف، اور اجتماعی ضمیر سے زندہ رہتی ہیں۔

“خش و خاشاک زمانے” میں تاریخی حقیقت کو فکشن کے ذریعے زندہ کیا گیا ہے۔ اس کا مرکزی کردار دراصل اُس نسل کی نمائندگی کرتا ہے جس نے تقسیم ہند کے المیے کو دیکھا، آزادی کا خواب دیکھا، اور پھر اس خواب کو سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھتے دیکھا۔ ناول میں جگہ جگہ ایسے اشارے ملتے ہیں جو پاکستان کی تاریخی واقعات کی طرف رہنمائی کرتے ہیں — جیسے سقوطِ مشرقی پاکستان، ایوبی آمریت، بھٹو دور کی سیاسی کشمکش، اور ضیاء الحق کی مذہبی انتہا پسندی کا دور۔ تارڑ نے ان تمام ادوار کو محض واقعات کے طور پر بیان نہیں کیا بلکہ ان کے اندر چھپی ہوئی فکری اور تہذیبی شکست کو موضوع بنایا۔

تارڑ کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ تاریخ کو محض بیان نہیں کرتے بلکہ اس پر سوال اٹھاتے ہیں۔ ان کا فکشن ایک نئی تاریخی قرأت پیش کرتا ہے — جسے جدید تنقید میں نو تاریخی مطالعہ (New Historicism) کہا جاتا ہے۔ اس زاویے سے ناول کے کردار تاریخ کے خاموش گواہ نہیں بلکہ تاریخ کے شریکِ کردار بن جاتے ہیں۔ ان کے احساسات، خواب، ناکامیاں اور بغاوتیں دراصل ایک پورے عہد کی اجتماعی نفسیات کی نمائندگی کرتی ہیں۔

“خش و خاشاک زمانے” کے تاریخی تجزیے میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ ناول پاکستانی قوم کی شناخت کے بحران کو نمایاں کرتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جن اصولوں — برابری، انصاف، اور مذہبی رواداری — پر ملک کی بنیاد رکھی گئی تھی، وہ سب وقت کے ساتھ پسِ منظر میں چلے گئے۔ تارڑ کے نزدیک یہی وہ لمحہ ہے جہاں قوم کی روح پر زنگ چڑھنا شروع ہوا۔ وہ دکھاتے ہیں کہ کیسے آزادی کے بعد بھی عام آدمی غلامی کے نئے روپ میں جکڑا رہا — کبھی جاگیردارانہ نظام کے تحت، کبھی مذہبی استحصال کے ہاتھوں، اور کبھی ریاستی جبر کے سائے میں۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو ناول میں سقوطِ ڈھاکا کے اثرات بھی نہایت گہرے ہیں۔ اگرچہ یہ واقعہ مرکزی موضوع نہیں، مگر کرداروں کے احساسات اور مکالمات میں وہ ٹوٹ پھوٹ اور محرومی صاف محسوس کی جا سکتی ہے جو ایک شکست خوردہ قوم کے ذہن پر چھا گئی تھی۔ یہ ناول اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ سقوطِ ڈھاکا دراصل ایک جغرافیائی نہیں بلکہ تاریخی اور فکری شکست تھی — ایک ایسی شکست جس نے قوم کے اجتماعی شعور کو منقسم کر دیا۔

تارڑ نے تاریخ کے ساتھ ساتھ ثقافتی زوال کا بھی بیان کیا ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان کی تاریخ صرف سیاسی نہیں بلکہ تہذیبی تاریخ بھی ہے۔ ناول میں جگہ جگہ شہری زندگی، اخلاقی اقدار، اور ثقافتی روایتوں کے بگڑتے ہوئے مناظر پیش کیے گئے ہیں۔ کرداروں کے مکالموں اور رویّوں میں وہ خالی پن اور گمشدگی جھلکتی ہے جو جدید دور کی مصنوعی ترقی کے ساتھ آتی ہے۔

“خش و خاشاک زمانے” میں مستنصر حسین تارڑ نے تاریخ اور سیاست کو انسانی تجربے کے ساتھ جوڑا ہے۔ ان کے لیے تاریخ محض بادشاہوں، جرنیلوں یا وزیروں کا ذکر نہیں بلکہ عام انسان کے دکھ اور جدوجہد کی کہانی ہے۔ ان کے کردار اس تاریخ کے اندر زندہ ہیں جو کتابوں سے زیادہ دلوں میں محفوظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کا بیانیہ جذباتی ہونے کے باوجود حقیقت سے قریب رہتا ہے۔

تاریخی تجزیے کی روشنی میں دیکھا جائے تو “خش و خاشاک زمانے” اردو ناول کی روایت میں وہ سنگ میل ہے جہاں ادب، تاریخ، اور سیاست ایک دوسرے میں گھل مل جاتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ نے اس ناول کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ ادیب محض تماشائی نہیں بلکہ تاریخ کا مؤرخ بھی ہوتا ہے — ایسا مؤرخ جو اعداد و شمار سے نہیں بلکہ احساسات اور تجربات سے تاریخ لکھتا ہے۔

آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ “خش و خاشاک زمانے” پاکستانی تاریخ کا ایک فکشنل ریکارڈ ہے — ایک ایسا بیانیہ جو شکست، امید، زوال اور مزاحمت کے تمام رنگوں کو سموئے ہوئے ہے۔ یہ ناول ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قومیں اس وقت تباہ نہیں ہوتیں جب ان کی سرحدیں ٹوٹتی ہیں بلکہ جب ان کے اندر انصاف، صداقت اور انسانیت کا چراغ بجھنے لگتا ہے۔ تارڑ نے اسی بجھتے ہوئے چراغ کی کہانی لکھی ہے — ایک ایسے عہد کی داستان جو خوابوں سے شروع ہوا اور مایوسی کے گرداب میں ڈوب گیا۔ یہی وہ پہلو ہے جو “خش و خاشاک زمانے” کو محض ادبی تخلیق نہیں بلکہ تاریخی دستاویز بنا دیتا ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں