خدیجہ مستور کا ناول زمین اردو فکشن میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ یہ ناول نہ صرف اپنے عہد کے سماجی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کی عکاسی کرتا ہے بلکہ عورت کے داخلی شعور اور اس کی نفسیاتی پیچیدگیوں کو بھی بڑے مؤثر انداز میں پیش کرتا ہے۔ خدیجہ مستور نے ہمیشہ اپنے فکشن میں عورت کی زندگی، اس کے مسائل اور اس کے تجربات کو مرکزی حیثیت دی ہے، اور زمین بھی اسی روایت کا تسلسل ہے۔ اس ناول کو تحقیقی اور تنقیدی تناظر میں دیکھنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایک عہد کی سماجی تاریخ اور عورت کی شعوری جدوجہد کا عکس ہے۔
تحقیقی اعتبار سے دیکھا جائے تو زمین کا بیانیہ ان عوامل کو نمایاں کرتا ہے جو برصغیر کے معاشرے میں عورت کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔ ناول کی کہانی ایک خاص طبقے کی عورتوں کے گرد گھومتی ہے لیکن اس کے اثرات عمومی معاشرتی سطح پر بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ناول برصغیر کے تقسیم سے پہلے اور بعد کے حالات کو مدنظر رکھ کر عورت کی زندگی کے نشیب و فراز کو دکھاتا ہے۔ اس میں ایک طرف عورت کی گھریلو زندگی اور اس پر ہونے والے جبر کو موضوع بنایا گیا ہے اور دوسری طرف اس کی داخلی دنیا کی گہرائیوں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ تحقیق کی سطح پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زمین دراصل عورت کی زمین ہے، وہ زمین جو اس کے وجود، اس کی خواہشات اور اس کی شناخت کی علامت ہے، لیکن اس زمین پر اس کا اختیار محدود ہے۔
ناول کا تنقیدی مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ خدیجہ مستور نے اپنے بیانیے کو حقیقت نگاری اور نفسیاتی بصیرت کے امتزاج سے تشکیل دیا ہے۔ ان کے کردار محض علامتی یا خیالی نہیں بلکہ حقیقی زندگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ عورت کی نفسیات کو اس کے سماجی ماحول کے تناظر میں دیکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کردار جیتے جاگتے محسوس ہوتے ہیں۔ ناول کی ناری کردار سماج کے جبر، مردانہ رویوں اور گھریلو دباؤ کا شکار ہوتے ہیں لیکن ان میں ایک ایسی قوت بھی نظر آتی ہے جو انہیں شکست تسلیم کرنے نہیں دیتی۔ اس طرح خدیجہ مستور عورت کو ایک غیر فعال اور مجبور ہستی کے بجائے ایک فعال اور شعوری فرد کے طور پر پیش کرتی ہیں۔
زمین میں زبان اور اسلوب پر بھی خاص توجہ دی گئی ہے۔ خدیجہ مستور کی نثر سادہ لیکن پراثر ہے۔ وہ مشکل اور تصنع سے بھرپور جملوں سے اجتناب کرتی ہیں اور سیدھی سادی زبان میں اپنی بات کہتی ہیں۔ لیکن اس سادگی میں ایک تخلیقی قوت اور فنی باریکیاں پوشیدہ ہیں۔ ان کے جملے کرداروں کی نفسیات اور حالات کی عکاسی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ بیانیے کی روانی اور کرداروں کی نفسیاتی گہرائی ناول کو ایک منفرد ادبی حیثیت عطا کرتے ہیں۔
تنقیدی حوالے سے دیکھا جائے تو زمین میں عورت کی ذات کو مرکزیت دینا خدیجہ مستور کی ادبی فکر کا اہم پہلو ہے۔ انہوں نے عورت کی کہانی کو محض رومان یا گھریلو مسئلے تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے سماج، تاریخ اور سیاست کے تناظر میں بھی پیش کیا۔ ان کا یہ رویہ اردو ناول میں ایک نیا زاویہ فراہم کرتا ہے۔ اس ناول کے ذریعے قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ عورت کی زندگی محض ذاتی یا گھریلو مسائل تک محدود نہیں بلکہ وہ وسیع تر معاشرتی اور تاریخی حالات سے بھی جڑی ہے۔
زمین کے کرداروں میں عورت کی داخلی کشمکش نمایاں ہے۔ وہ اپنی شناخت، اپنے وجود اور اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔ لیکن یہ جدوجہد محض بغاوت نہیں بلکہ ایک شعوری اور صبر آزما کوشش ہے۔ خدیجہ مستور نے عورت کے اس پہلو کو بڑی باریکی سے بیان کیا ہے کہ وہ روایتی قدروں اور اپنی داخلی خواہشات کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہی توازن اس ناول کی بنیادی فکری جہت ہے۔
خدیجہ مستور کے ناول کو اس کی نسائی فکر کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے عورت کی دنیا کو اس کے اپنے نقطہ نظر سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ انداز اردو فکشن میں ایک نئی جہت کا اضافہ کرتا ہے۔ زمین نسائی ادب کا ایک اہم حوالہ ہے کیونکہ یہ عورت کے تجربے کو مرکزی حیثیت دے کر پیش کرتا ہے اور اس کے جذبات و احساسات کو انسانی سطح پر اجاگر کرتا ہے۔
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ خدیجہ مستور کا ناول زمین اردو ادب میں ایک ایسا تخلیقی کارنامہ ہے جو تحقیق اور تنقید دونوں حوالوں سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس میں عورت کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو حقیقت نگاری، نفسیاتی بصیرت اور فنی مہارت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ خدیجہ مستور نے اس ناول کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ عورت محض ایک گھریلو کردار نہیں بلکہ ایک مکمل انسان ہے جس کی اپنی زمین، اپنی شناخت اور اپنی جدوجہد ہے۔