خالدہ حسین کے افسانوں میں نسائی مسائل کو روایتی اور جدید سماجی تناظر میں تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کی تخلیقات میں خواتین کے مسائل کی عکاسی نہ صرف سماجی اور ثقافتی سطح پر کی گئی ہے بلکہ ان افسانوں میں نسوانی تجربات کی پیچیدگیوں اور ان کے حق میں تبدیلی کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ خالدہ حسین نے اپنی تحریروں میں خواتین کی حالتِ زار، ان کے حقوق، اور ان کی معاشرتی جگہ کو ایک نیا زاویہ دیا ہے۔ ان کے افسانوں میں جہاں ایک طرف خواتین کو روایتی سماج کی قید اور مردوں کی اجارہ داری کا سامنا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، وہیں دوسری طرف جدید دور میں خواتین کی تعلیم، ان کے اقتصادی حقوق اور خود مختاری کی بات بھی کی گئی ہے۔ خالدہ حسین نے نسائی مسائل کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری نہ صرف خواتین کے موجودہ مسائل کی حقیقت سے آگاہ ہوتا ہے بلکہ وہ ان مسائل کے حل کی طرف بھی توجہ مبذول کرتا ہے۔ ان کے افسانوں میں دکھایا گیا ہے کہ خواتین کو روایتی طور پر کمزور اور محدود سمجھا جاتا ہے، لیکن جدید سماجی تناظر میں وہ خود کو ایک مضبوط اور آزاد شخصیت کے طور پر ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں نسوانیت کا ایک ایسا اظہار ہے جو نہ صرف سماجی توقعات سے آزاد ہو کر اپنی شناخت کو نئے سرے سے قائم کرتا ہے بلکہ خواتین کی جدوجہد اور بغاوت کی طاقت کو بھی پیش کرتا ہے۔ خالدہ حسین کی تحریریں خواتین کی آزادی اور خود مختاری کی جانب ایک اہم قدم کی نشاندہی کرتی ہیں، جہاں وہ ایک طرف تو سماجی جبر کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں، وہیں جدید سماج میں اپنی جگہ کو بھی مضبوطی سے قائم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان افسانوں میں نسائی مسائل کی عکاسی ایک گہری سماجی بصیرت کی نمائندگی کرتی ہے، جو نہ صرف خواتین کے حقوق کو بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کی تبدیلی کی ضرورت کو بھی اُجاگر کرتی ہے۔