حبیب جالب کی شاعری میں مزاحمتی عناصر ایک جاندار عوامی لب و لہجے میں سامنے آتے ہیں، جہاں وہ ظلم، استحصال اور جبر کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کسی مخصوص طبقے تک محدود نہیں بلکہ عام آدمی کی ترجمان ہے، جو جبر و استبداد کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتی ہے۔ ان کی مزاحمتی شاعری میں سامراجی قوتوں، آمرانہ نظاموں اور معاشرتی ناانصافیوں پر شدید تنقید ملتی ہے۔ وہ اپنے اشعار میں نہ صرف سیاسی جبر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں بلکہ معاشرتی استحصال، طبقاتی تفریق اور انسانی حقوق کی پامالی جیسے موضوعات کو بھی بے باکی سے اجاگر کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں عوام کی امیدیں، خواب اور انقلابی جذبات نمایاں ہیں، جو ظلم کے خلاف جدوجہد کی علامت بنتے ہیں۔ جالب کی شاعری روایتی الفاظ اور علامتوں میں محدود نہیں بلکہ براہِ راست اور سادہ زبان میں اپنی بات کہتی ہے، جو عوام کے دلوں میں فوری اثر کرتی ہے۔ ان کا کلام صرف ادب کی حد تک محدود نہیں بلکہ ایک سماجی و سیاسی تحریک کا درجہ رکھتا ہے، جو آج بھی انقلابی سوچ رکھنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔