جیلانی بانو اردو ادب کی ممتاز افسانہ نگار اور ناول نویس ہیں جنہوں نے بیسویں صدی کی دوسری نیم میں سماجی، نفسیاتی اور صنفی موضوعات کو نہایت حساسیت اور بصیرت کے ساتھ اپنے فکشن میں پیش کیا۔ ان کے فکشن کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کا تخلیقی کینوس نہ صرف عورت کی زندگی اور اس کی داخلی کشمکش پر محیط ہے بلکہ وہ پورے معاشرے کی طبقاتی، تہذیبی اور روایتی پیچیدگیوں کو بھی اپنی تحریر کا حصہ بناتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں جہاں عورت کی ذات، اس کی شناخت، آزادی، جذبات اور خواہشات کو نمایاں حیثیت دی گئی ہے، وہیں مرد اساس سماجی ڈھانچے کے تضادات اور جبر کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے۔ جیلانی بانو نے معاشرے کے ان پہلوؤں کو فنکارانہ طریقے سے اجاگر کیا ہے جہاں عورت کو محض ایک جسم، ایک سماجی رشتہ، یا ایک فرماں بردار کردار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان کے مشہور افسانے جیسے “نرگس”، “بارش کی پہلی بوند”، “عورت اور آدمی”، اور “ایک دن” اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ عورت کو ایک مکمل انسان کے طور پر تسلیم کرنے کی حمایت کرتی ہیں، جو نہ صرف محسوس کرتی ہے بلکہ سوچنے، فیصلہ کرنے اور بغاوت کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کے ناول “بارش، خاک اور گلاب” میں عورت کی نفسیاتی گہرائیوں، اس کے داخلی اضطراب، سماجی بندشوں اور وجودی سوالات کو نہایت فنکارانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ جیلانی بانو کا اسلوب نہایت سادہ، شفاف اور علامتی پیرائے سے پاک ہے، جو ان کے بیانیے کی براہِ راست تاثیر کو بڑھاتا ہے۔ تاہم وہ بعض اوقات علامتوں اور اشارات کو نہایت ہنر مندی سے استعمال کرتی ہیں، جس سے متن کی معنویت میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ ان کے فکشن میں ترقی پسند تحریک کی جھلک بھی نمایاں ہے، لیکن وہ محض نعرہ بازی کی بجائے اپنے کرداروں اور کہانیوں کے ذریعے سماجی مسائل کو زندہ حقیقت کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ تنقیدی زاویے سے دیکھا جائے تو جیلانی بانو نے اردو فکشن کو نسائی شعور کے ایک نئے موڑ سے روشناس کرایا، لیکن ان کا نسائی نظریہ توازن اور معروضیت پر مبنی ہے، جو نہ تو انتہاپسند ہے اور نہ ہی مرد دشمنی پر مبنی۔ ان کی تحریریں نہ صرف اردو فکشن میں عورت کی نئی شناخت کو اجاگر کرتی ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانیت، عدل، محبت، اور وجود کے بنیادی سوالات کو بھی زیر بحث لاتی ہیں۔ یوں جیلانی بانو کا فکشن محض صنفی ادب نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت انسانی تجربے کی عکاسی کرتا ہے، جو اردو افسانے اور ناول کے تحقیقی و تنقیدی مطالعے میں ایک اہم حوالہ بن چکا ہے۔