جدید اردو نظم کا مبہم بیانیہ، خاص طور پر ساٹھ سے نوے کی دہائی تک، اردو شاعری میں ایک اہم اور پیچیدہ رجحان رہا ہے جس نے ادب کی روایتی بیانیہ ساخت کو چیلنج کیا۔ اس دور میں شاعری میں نہ صرف حقیقت پسندی اور جمالیاتی قدروں کے روایتی اصولوں سے انحراف کیا گیا، بلکہ شاعروں نے اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار میں ایک نیا، زیادہ مبہم اور غیر مستقیم طریقہ اختیار کیا۔ یہ دور اردو شاعری میں “زوالِ مہا بیانیہ” کے طور پر جانا جاتا ہے، جہاں مجموعی طور پر دنیا کے بارے میں سچائیاں اور عقیدے متزلزل ہو گئے اور شاعری میں ان پیچیدہ حقیقتوں کو سمجھنے کی کوشش کی گئی، جو عمومی بیانیہ میں نہیں آ سکتیں۔ جدید اردو نظم میں مبہم بیانیہ کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ شاعروں نے الفاظ اور جملوں کے ذریعے ایک مخصوص معانی کی بجائے کئی مختلف معانی کو جنم دینے کی کوشش کی۔ ان کی نظموں میں قاری کے لیے ایک ایسا خلا ہوتا تھا جسے وہ خود اپنی سوچ اور تجربات کے مطابق پر کرتا تھا۔ اس بیانیے میں حقیقت سے زیادہ احساسات، تجزیے، اور انفرادیت پر زور دیا گیا۔