جدید اردو نظم میں تصورِ انسان ایک پیچیدہ اور متنوع موضوع کے طور پر ابھرا ہے، جہاں انسان کی داخلی کیفیات، اس کی سماجی و ثقافتی حقیقتوں اور فرد کی آزادی کو اہمیت دی گئی ہے۔ جدیدیت کی اثرات کے تحت اردو نظم نے انسان کی شخصیت کی گہرائیوں کو اجاگر کیا، جس میں اس کی جذباتی، نفسیاتی اور فلسفیانہ جدوجہد کو پیش کیا گیا۔ نظم نگاروں نے انسان کو ایک متحرک اور متنوع موجود کے طور پر پیش کیا، جو نہ صرف سماجی، بلکہ داخلی دنیا میں بھی بے چینی اور سوالات کا شکار ہوتا ہے۔ فیض احمد فیض، احمد فراز، اور بشیر بدر جیسے شعرا نے انسان کی جدوجہد، محبت، سیاسی حقیقتوں اور معاشرتی ناانصافیوں کو شاعری کا موضوع بنایا، جس میں انسان کی موجودگی کا سوال اور اس کے حقوق کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس تصور میں انسان محض فرد نہیں بلکہ ایک اجتماعی تشخص کے طور پر دکھایا گیا ہے، جو اپنی آزاد مرضی اور فکری پختگی کے ساتھ دنیا میں اپنی جگہ تلاش کرتا ہے۔ جدید اردو نظم میں انسان کے اس تصور نے اسے ایک نئی شناخت دی، جو نہ صرف اس کے داخلی تجربات بلکہ اس کی دنیا کے ساتھ تعلقات کی پیچیدگیوں کو بھی بیان کرتا ہے۔