جدید اردو غزل کا فلسفیانہ پہلو انسانی وجود، تقدیر، اور فرد کی داخلی کشمکش پر گہری توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اس میں وجودیت، آزادی، اور خودی جیسے موضوعات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، جہاں شاعروں نے انسان کی ذہنی و نفسیاتی حالت، اس کی آزادی اور زندگی کے مقصد پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اس دور کی غزل میں عشق اور محبت کی روایتی تصاویر کے بجائے، فرد کے اندرونی بحران، ذات کا کھوج اور وجودی بحران کو بیان کیا گیا ہے۔ اس فلسفیانہ زاویہ نے غزل کو جمالیاتی طور پر گہرا اور فکری طور پر معیاری بنایا، اور اس میں نیچرلزم اور اگزیسٹینشلزم جیسے جدید فلسفیانہ نظریات کا اثر بھی نمایاں ہے، جو شاعری کو نہ صرف جذباتی بلکہ ذہنی سطح پر بھی اہمیت دیتے ہیں۔