جدید اردو شاعری میں فطرت نگاری کا فن اپنی تمام تر رعنائیوں، گہرائیوں اور معنوی وسعتوں کے ساتھ ایک نئی شناخت تشکیل کرتا ہے۔ بیسویں صدی کے نصف آخر سے تیزی سے بدلتی ہوئی معاشرتی قدروں، تہذیبی انتشار اور جدیدیت کے زیر اثر اردو شاعری میں فطرت کے تصور نے بھی نئے نئے رنگ اختیار کئے۔ یہاں فطرت محض پھولوں، بلبلوں، بہاروں اور خزاں تک محدود نہیں رہی، بلکہ وہ جدید انسان کی نفسیاتی پیچیدگیوں، تہذیبی کشمکش اور وجودیاتی مسائل کی علامتی ترجمان بن کر سامنے آئی ہے۔جدید اردو شاعری میں فطرت نگاری کو سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اس کے تاریخی ارتقاء کا جائزہ لینا ہوگا۔ کلاسیکی اردو شاعری میں فطرت کو زیادہ تر تزئینی انداز میں پیش کیا جاتا تھا۔ میر و غالب کے ہاں بہار و خزاں کے مناظر، چاند ستاروں کے تذکرے اور پھولوں کی کیفیات دراصل محبوب کے حسن کی عکاسی کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ لیکن جدید دور میں یہی فطری عناصر اپنی روایتی معنویت سے ہٹ کر نئے مفاہیم و مطالب کا حامل بن گئے ہیں۔ جدید شاعر نے فطرت کو محض خارجی حسن کے اظہار تک محدود نہیں رہنے دیا بلکہ اسے انسانی ذہن کی گہری پرتوں کو کھولنے کا ایک موثر ذریعہ بنایا ہے۔
جدید اردو شاعری میں فطرت نگاری کی سب سے اہم خصوصیت اس کا علامتی اور استعاراتی نظام ہے۔ ن م راشد کی شاعری میں دریا اب محض ایک فطری منظر نہیں رہا بلکہ وہ انسانی وجود کی بے چینی، لامحدود خواہشات اور زمان و مکان کی وسعتوں کا استعارہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح افتخار عارف کے ہاں درخت کی علامت روایتی تصور سے ہٹ کر انسانی تنہائی، استقامت اور وجودی جدوجہد کی داستان بیان کرنے لگتی ہے۔ میرا جی کی شاعری میں موسموں کی کیفیات انسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتی نظر آتی ہیں۔شہری زندگی کے بڑھتے ہوئے اثرات نے جدید اردو شاعری میں فطرت نگاری کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ ظفر اقبال، انور شعور اور بعض دیگر جدید شعرا نے کانکریٹ کے جنگلوں میں فطرت کی تلاش کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ یہاں فطرت شہری زندگی کی مصنوعیت، تنہائی اور بے گانگی کے مقابلے میں ایک متبادل حقیقت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ جدید شہری زندگی کی پیچیدگیوں میں گھرے انسان کے لیے فطرت کا تصور ایک طرح کی روحانی پناہ گاہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ماحولیاتی بحران نے جدید اردو شاعری میں فطرت کے تصور کو ایک نئی سنجیدگی عطا کی ہے۔ کشور ناہید، افتخار عارف اور بعض دیگر شعرا کی تخلیقات میں فطرت کا استحصال، درختوں کی کٹائی اور قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال پر شدید تنقید ملتی ہے۔ یہ شاعر فطرت کو محض شاعرانہ مواد نہیں سمجھتے بلکہ اسے انسانی بقا سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ اس طرح جدید اردو شاعری میں فطرت نگاری ماحولیاتی شعور کی ترجمان بھی بن گئی ہے۔
جدید اردو شاعری میں فطرت نگاری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ایک ایسا موضوع ہے جو اردو ادب کی شعری روایت اور اس کے فکری و جمالیاتی رجحانات کو سمجھنے میں نہایت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ فطرت نگاری اگرچہ اردو شاعری کے کلاسیکی دور میں بھی موجود رہی ہے، تاہم جدید اردو شاعری میں یہ رجحان ایک نئے شعور، نئے تناظر اور بدلتے ہوئے سماجی و تہذیبی سیاق و سباق کے تحت ابھرتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر فطرت کے مظاہر محض جمالیاتی تاثر یا رومانوی کیفیت تک محدود نہیں رہے بلکہ وہ استعارہ بن گئے انسانی مصائب، سماجی ناانصافیوں اور سیاسی جبر کے خلاف مزاحمت کا۔ فیض احمد فیض، ن۔م۔ راشد، میرaji اور اختر الایمان جیسے شعرا نے فطرت کے عناصر کو ایک فکری گہرائی، داخلی کرب اور وجودی سوالات کے اظہار کے لیے استعمال کیا۔ فیض کے ہاں گل و بلبل کی دنیا سرمایہ دارانہ استبداد کے خلاف مزاحمت کی علامت بن جاتی ہے، جبکہ راشد کی نظموں میں فطرت کی شبیہیں تجریدی اور علامتی رنگ اختیار کرتی ہیں۔ بعد ازاں نظم جدید کے شعرا نے فطرت کو شہری زندگی کی مشینی فضا کے تناظر میں پیش کیا، جہاں درخت، پرندے، بارش اور ہوا جیسے عناصر یادداشت، تشویش اور داخلی انتشار کی علامتوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ محسن بھوپالی، افتخار جالب، سرور جاوید، احمد مشتاق اور زاہد ڈار جیسے شعرا کی نظموں میں فطرت نگاری محض خارجی منظرکشی نہیں بلکہ نفسیاتی اور ثقافتی حوالوں سے ایک گہرا مفہوم رکھتی ہے۔ عورت، دھرتی، بارش، خزاں، سورج، پرندے، اندھیرے اور روشنی جیسے عناصر نہ صرف کلام کو ایک استعاراتی گہرائی دیتے ہیں بلکہ شاعر کے داخلی کرب، اجتماعی بے حسی یا تہذیبی انحطاط کی صورت گری بھی کرتے ہیں۔ جدید اردو شاعری میں فطرت نگاری کا تنقیدی جائزہ ہمیں اس بات کا ادراک دیتا ہے کہ کس طرح فطرت انسانی زندگی کے کرب، خواب، امید، زوال اور بغاوت کے بیانیے میں رچ بس کر ایک ہمہ جہت معنویت اختیار کر لیتی ہے، اور یہ کہ اردو کا جدید شاعر اپنی داخلی واردات اور خارجی مشاہدے کو کس طرح ایک فکری و جمالیاتی وحدت میں ڈھالتا ہے۔