جاوید انور کے افسانوں میں معاصر زندگی کی عکاسی ایک گہری اور پیچیدہ نوعیت کی ہوتی ہے، جو نہ صرف سماجی حقیقتوں کو ظاہر کرتی ہے بلکہ ان میں موجود انسانی جذبات، نفسیاتی کیفیتوں، اور فرد کے داخلی تضادات کو بھی نمایاں کرتی ہے۔ ان کے افسانے معاصر دنیا کے مسائل، جیسے معاشرتی ناہمواریاں، طبقاتی فرق، اقتصادی بحران، اور انسان کی تنہائی کی کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ ان کی تخلیقات میں جہاں ایک طرف معاشرتی اور سیاسی حالات کا تذکرہ ہوتا ہے، وہیں دوسری طرف انسان کی انفرادی کشمکش اور داخلی جنگ بھی نمایاں ہوتی ہے۔ جاوید انور کے افسانوں میں انسان کی حقیقت پسندی اور اس کے پیچیدہ رویے کی عکاسی کی جاتی ہے، جہاں وہ اپنی زندگی کے روزمرہ کے چیلنجز اور مشکلات سے نبرد آزما ہوتا ہے، لیکن اس کے اندر ایک گہری بے چینی اور عدم تحفظ کا بھی احساس پایا جاتا ہے۔ ان کے افسانوں میں مختلف طبقوں کے افراد، خواہ وہ کسان ہوں یا مزدور، تعلیم یافتہ افراد ہوں یا دیہاتی، ان سب کے مسائل کو حقیقت پسندی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اور ان میں انسانی احساسات کی گہرائی اور پیچیدگیاں بخوبی دکھائی دیتی ہیں۔ معاصر زندگی کی عکاسی کرتے ہوئے جاوید انور افسانوں میں انفرادی سطح پر انسان کے انتخاب، اس کے اخلاقی سوالات، اور اس کی سماجی ذمہ داریوں پر زور دیتے ہیں۔ ان کے افسانے ایک طرف معاصر دور کی تلخیوں کو اجاگر کرتے ہیں تو دوسری طرف انسانی جذبات، تعلقات، اور فرد کی جدوجہد کی حقیقت کو بھی روشن کرتے ہیں، جس سے یہ افسانے قاری کو موجودہ دنیا کی حقیقتوں سے آشنا کراتے ہیں اور اس کے ذہن میں سوالات پیدا کرتے ہیں کہ وہ کس طرح اس پیچیدہ اور متضاد دنیا کا حصہ ہے۔