ترقی پسند، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے تناظر میں منتخب ناقدین کا فکری مطالعہ اردو ادب کی ترقی کی مختلف مراحل کی عکاسی کرتا ہے، جس میں ہر دور کے مخصوص سماجی، سیاسی اور ثقافتی پس منظر کا اثر نظر آتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے تناظر میں ناقدین نے ادب کو محض تفریح یا جمالیاتی مقصد کے طور پر نہیں دیکھا بلکہ اسے سماجی اصلاح اور انقلاب کے ایک اہم ذریعہ کے طور پر پیش کیا۔ ترقی پسند ناقدین جیسے کہ سجاد ظہیر، احمد علی اور اسد محمد خان نے ادب کو عوام کے مسائل اور ان کے حقوق کی آواز بنایا۔ ان ناقدین نے اس بات پر زور دیا کہ ادب معاشرتی تبدیلی کا محرک ہو سکتا ہے اور اسے طبقاتی کشمکش، سرمایہ داری، جاگیرداری اور استحصال جیسے مسائل پر روشنی ڈالنی چاہیے۔ ان کی فکری روایات میں عوامی مسائل، طبقاتی تفریق اور سیاسی سرگرمیاں اہم موضوعات تھے۔جدیدیت کے دور میں ادب اور تنقید کی روش بدل گئی، اور اس میں فرد کی داخلی دنیا، تخیل اور اس کے ذاتی تجربات پر زیادہ زور دیا گیا۔ جدیدیت کے نمائندہ ناقدین جیسے کہ میرا جی، غالب اور آغا شورش کشمیری نے ادب میں فرد کی آزادی، مابعد جدید معاشرتی حقیقتوں کی ترجمانی اور ذہنی پیچیدگیوں کو نمایاں کیا۔ اس دور میں زبان اور شکل کی اہمیت بڑھی، اور ادب میں جمالیات اور بصری تاثرات کی تفتیش کی گئی۔ ان ناقدین نے ادب کو انفرادیت، تخلیقی آزادی اور خود مختاری کا ذریعہ سمجھا، اور فرد کے ذہنی اور جذباتی کرب کو موضوع بنایا۔ مابعد جدیدیت کے ناقدین جیسے کہ رابعہ رفعت، تنویر پہاڑ اور بشری انور نے ادب کو ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی عمل کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ انہوں نے حقیقت، تاریخ اور زبان کی غیر معصومیت کو چیلنج کیا اور ادب میں استعاروں، علامتوں اور غیر روایتی بیانیہ تکنیکوں کا استعمال بڑھایا۔ مابعد جدیدیت میں ناقدین نے حقیقت کی ثابتیت اور مطلقیت کو سوالات کے دائرے میں رکھا، اور یہ استدلال کیا کہ حقیقت ہمیشہ نسبتی اور متغیر ہوتی ہے۔ اس دور کے ناقدین نے ادب میں انفرادیت کے ساتھ ساتھ سماجی حقیقتوں کی پیچیدہ اور متنوع نوعیت کو تسلیم کیا، اور ادب کو معاشرتی، سیاسی اور ثقافتی سطحوں پر ایک کثیر الجہتی ردعمل کے طور پر پیش کیا۔