انتظار حسین کے افسانوں کا مابعد نوآبادیاتی مطالعہ تجزیہ ادب کے جدید تناظرات میں اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ان کے افسانے نہ صرف پاکستان کی سماجی، سیاسی اور ثقافتی تاریخ کا عکس ہیں بلکہ ان میں نوآبادیاتی اثرات کے بعد کی پیچیدگیاں بھی اجاگر کی گئی ہیں۔ انتظار حسین کے افسانے “انتھائی مدت کا انتظار”، “مٹی کا انسان”، “چند قدم دور” اور دیگر کئی افسانوں میں مابعد نوآبادیاتی عناصر کی جھلکیاں ملتی ہیں، جہاں وہ نوآبادیاتی دور کے اثرات کو اور اس کے بعد کے سماجی، ثقافتی اور سیاسی بحرانوں کو موضوع بناتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں نوآبادیاتی تاریخ کی گونج اور اس کے اثرات کی تشکیل ایک پیچیدہ اور نفسیاتی سطح پر کی گئی ہے۔ حسین نے ان افسانوں میں نوآبادیاتی نظام کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غیر مستحکم شناخت، سماجی تفریق، اور انفرادیت کی بحران کو بیان کیا ہے۔ ان کے کردار اس کشمکش میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ ماضی کی نوآبادیاتی طاقتوں کی چھاؤں سے کس طرح آزاد ہوں اور اپنے خود کی شناخت کو تلاش کریں۔ حسین کے افسانوں میں “ہائبرڈیت” اور “ثالثیت” کے تصورات بڑی شدت سے موجود ہیں، جہاں ان کے کردار مختلف ثقافتوں اور شناختوں کے بیچ معلق ہوتے ہیں۔ “ہائبرڈیت” کی صورت میں حسین کے افسانوں میں ثقافتی جدو جہد، زبانوں کی تبدیلی اور مختلف شناختوں کا امتزاج دکھایا گیا ہے، جب کہ “ثالثیت” کے حوالے سے ان کے کردار ایک لامتناہی کشمکش میں گرفتار ہوتے ہیں۔ ان افسانوں کا تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حسین نے مابعد نوآبادیاتی دور کی پیچیدگیوں، تبدیلیوں اور ان کی سماجی، سیاسی، اور ثقافتی صورتوں کو حقیقت کے قریب تر پیش کیا ہے، جو نہ صرف ان کے کرداروں کی ذاتی جدو جہد کو اجاگر کرتا ہے بلکہ نوآبادیاتی تاریخ کے اثرات کو سمجھنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ اس تناظر میں، انتظار حسین کا ادب نہ صرف پاکستان کی سماجی حقیقتوں کا عکاس ہے بلکہ وہ مابعد نوآبادیاتی فکری تنقید کے اہم مسائل پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔