تانیثیت (Feminism) محض عورتوں کے حقوق کی تحریک نہیں بلکہ ایک فکری، نظریاتی اور تہذیبی عمل ہے، جو صدیوں سے قائم پدرشاہی (Patriarchy) نظام، صنفی امتیاز، عورت کی تحقیر اور اس کی آواز کو دبانے کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے۔ تانیثیت کا مقصد نہ صرف عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی نشان دہی کرنا ہے، بلکہ معاشرے کے ان فکری، تہذیبی، اور لسانی ڈھانچوں کو بھی چیلنج کرنا ہے جو عورت کو حاشیے پر رکھتے ہیں۔ اردو ادب، بالخصوص پاکستانی اردو ادب، میں تانیثیت کا ظہور ایک فکری بیداری، شعورِ ذات، اور معاشرتی ردعمل کے طور پر سامنے آیا، جس نے روایتی بیانیے کو چیلنج کیا اور عورت کو محض موضوع یا محبوبہ کے کردار سے نکال کر ایک بولتی، سوچتی، احتجاج کرتی اور خود کو شناخت کرتی ہستی کے طور پر پیش کیا۔
پاکستان کے قیام کے بعد اردو ادب کا مزاج کچھ عرصہ تک قوم پرستی، ہجرت، اسلامی شناخت اور تہذیبی رومانویت کے گرد گھومتا رہا۔ خواتین لکھنے والی موجود تھیں، مگر ان کی تحریریں عمومی طور پر سماجی حدود کے اندر رہتی تھیں۔ خدیجہ مستور، حمیدہ شاہین، سلمیٰ اعوان، اور جمیلہ ہاشمی جیسی خواتین ادیباؤں نے عورت کی زندگی کے دکھ، اس کے کچلے جذبات، اور سماجی استحصال کو بیان ضرور کیا، مگر انہوں نے کھل کر تانیثی نظریے کا پرچار نہیں کیا۔ تاہم، بیسویں صدی کے آخری عشروں میں تانیثیت نے ایک واضح فکری تحریک کی صورت اختیار کی، جس کا سب سے نمایاں مظہر فکشن اور تنقید کے میدان میں ہوا۔
فکشن میں تانیثیت کی سب سے توانا آواز فہمیدہ ریاض کے ہاں سنائی دیتی ہے، جنہوں نے عورت کی جنسی شناخت، اس کے جذباتی وجود، اور معاشرتی استبداد کے خلاف جرأت مندانہ بیانیہ قائم کیا۔ ان کی شاعری اور نثر دونوں میں تانیثیت کی فکری جہتیں نمایاں ہیں۔ وہ عورت کو محض مظلوم نہیں بلکہ مزاحمت کرنے والی اور خود کو منوانے والی ہستی کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ اسی تسلسل میں کشور ناہید، عذرا عباس، پروین شاکر، سارہ شگفتہ اور نرگس زاہد جیسے شاعروں و فکشن نگاروں نے عورت کی ذات، اس کے رشتوں، بدن، خوابوں اور محرومیوں کو تخلیقی انداز میں بیان کیا۔
پروین شاکر نے نسائی جذبوں کو نرمی، لطافت اور علامتوں کے ذریعے اردو غزل میں سمویا۔ ان کی شاعری میں نسوانی جمالیات کے ساتھ ساتھ داخلی کرب، شناخت کا بحران، اور جذباتی استرداد کی گونج سنائی دیتی ہے۔ سارہ شگفتہ کی نظموں میں عورت کی اذیت، داخلی شکستگی، اور معاشرتی بغاوت ایک شدید نفسیاتی اور علامتی انداز میں ظاہر ہوتی ہے، جو اردو نظم کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔
اردو تنقید میں تانیثی شعور نے ابتدا میں خاصی مزاحمت کا سامنا کیا۔ مرد نقادوں نے تانیثیت کو اکثر غیر ملکی نظریہ یا مغربی سازش کے طور پر پیش کیا۔ تاہم، نسرین انجم بھٹی، ڈاکٹر عشرت آفرین، ڈاکٹر نگہت سلیم، ڈاکٹر تبسم کاشمیری اور سیدہ جعفر جیسے لکھاریوں نے نہ صرف تانیثیت کی فکری وضاحت کی، بلکہ اردو ادب میں اس کے اثرات، حدود، اور امکانات پر سنجیدہ گفتگو کو فروغ دیا۔ اردو تنقید میں اب تانیثی تجزیہ ایک باضابطہ نقطۂ نظر کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔
پاکستانی اردو ادب میں تانیثیت صرف عورتوں تک محدود نہیں رہی بلکہ مرد لکھاریوں نے بھی اس فکر کو اپنایا۔ منصور عثمانی، عطاء الحق قاسمی، انتظار حسین اور ناصر عباس نیر جیسے نقاد اور فکشن نگاروں نے تانیثی مسائل کو اپنی تحریروں کا حصہ بنایا، اور عورت کو بطور خود مختار کردار پیش کیا۔ بانو قدسیہ اور عمیرہ احمد جیسے مصنفین نے اگرچہ تانیثیت کا براہ راست پرچار نہیں کیا، مگر ان کے فکشن میں عورت کی داخلی دنیا، اس کے تضادات، اور معاشرتی نظام سے اس کی کشمکش نمایاں ہے، گو وہ اکثر روایتی دائرے میں رہتی ہے۔
تانیثیت نے پاکستانی اردو ادب کو یہ سکھایا کہ عورت کو ادب میں صرف مرد کے آئینے سے نہ دیکھا جائے بلکہ اسے اپنی زبان، تجربہ، اور شعور کے ساتھ پرکھا جائے۔ تانیثی ادب نے نہ صرف عورت کے استحصال کو بے نقاب کیا بلکہ ادب میں زبان کے استعمال، کردار نگاری، اور پلاٹ کی ساخت تک کو متاثر کیا۔ اب عورت کو نہ صرف معاشرے کے مظلوم طبقے کے طور پر دکھایا جا رہا ہے، بلکہ وہ خود اپنی تقدیر لکھنے والی، سوال اٹھانے والی، اور جواب مانگنے والی ہستی کے طور پر سامنے آئی ہے۔
آج کا پاکستانی اردو ادب تانیثیت کے بغیر ادھورا ہے۔ چاہے وہ شاعری ہو، افسانہ، ناول یا تنقید—عورت کی ذات، اس کا وجود، اس کے جسم، اس کی زبان، اس کی سماجی حیثیت، اور اس کی شناخت سب اہم موضوعات بن چکے ہیں۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ تانیثی ادب کو اب بھی پدرشاہی ذہنیت کا سامنا ہے، اسے مغرب زدہ یا “انتہا پسند” کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر اس کے باوجود یہ رجحان اردو ادب میں ایک فکری انقلاب کا درجہ رکھتا ہے۔
تانیثیت نے پاکستانی اردو ادب کو ایک نیا زاویہ نگاہ دیا ہے، جس نے عورت کو محض جنس نہیں، بلکہ شعور، مزاحمت، شناخت اور تخلیق کا مرکز بنا دیا ہے۔ یہ تحریک اب صرف عورتوں کی نہیں رہی، بلکہ یہ ہر اس انسان کی آواز ہے جو جبر، امتیاز اور خاموشی کے خلاف کھڑا ہے۔ اردو ادب میں تانیثیت ایک مسلسل جاری فکری تحریک ہے، جو آئندہ بھی سماجی تبدیلی اور ادبی ارتقا کا اہم ذریعہ بنی رہے گی۔