بیسویں صدی کے اردو سفرنامے محض جغرافیائی مقامات کی سیاحت کا بیان نہیں بلکہ فکری و تہذیبی جہتوں سے مالا مال بیانیے ہیں جو نہ صرف مصنف کے مشاہدات بلکہ ان کے فکری پس منظر، تہذیبی شعور، اور عالمی منظرنامے پر ان کے ردعمل کو بھی منعکس کرتے ہیں۔ اس دور میں جب دنیا تیزی سے بدل رہی تھی، نوآبادیاتی نظام کا زوال، دوسری جنگ عظیم، مشرق و مغرب کے مابین بڑھتی ہوئی دوریاں اور نظریاتی تقسیم، اردو سفرنامہ نگاروں کے فکری دھاروں میں گہرائی کا باعث بنے۔ یہ سفرنامے صرف بیرونی دنیا کی تصویر کشی نہیں کرتے بلکہ اس کے پس منظر میں مصنف کی اپنی تہذیبی شناخت، قومی تشخص، اور انسانیت سے جڑے سوالات کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ، قدرت اللہ شہاب، کرنل محمد خان، حسرت موہانی، اور یوسف خالد جیسے ادیبوں کے سفرنامے تہذیبی مکالمے، بین الثقافتی مشاہدات، اور تاریخی شعور سے بھرپور ہیں۔ ان میں مشرقی اقدار، مغربی ترقی، اور ان دونوں کے درمیان کشمکش کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے۔ بیسویں صدی کے اردو سفرناموں میں مصنف کا داخلی سفر بھی نمایاں ہے جو پڑھنے والے کو ایک ہمہ جہت تہذیبی و فکری تجربے سے ہمکنار کرتا ہے۔ اس طرح یہ سفرنامے اردو ادب میں نہ صرف بیانیہ نثر کی ترقی کا سبب بنے بلکہ تہذیبی خود شناسی کے ایک وقیع وسیلے کے طور پر بھی سامنے آئے۔