بیسویں صدی کی اردو شاعری میں نسائی حسیت نے ایک اہم موڑ لیا، جہاں عورتوں نے اپنی آواز اور خیالات کو شاعری کے ذریعے سماج میں اجاگر کیا۔ اس دور میں خواتین شاعروں نے نہ صرف اپنے ذاتی تجربات بلکہ اجتماعی سطح پر خواتین کے مسائل کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ نسائی حسیت کا اظہار ان شاعریوں میں انفرادیت، آزادی، اور مساوات کے تصورات کے طور پر ہوا، جس میں عورت کے حقوق، سماجی استحصال اور اس کی خودمختاری پر زور دیا گیا۔ خواتین شاعروں نے مردانہ معاشرتی اصولوں اور رویوں کے خلاف آواز بلند کی اور ان کے ذریعے نسوانی تجربات، احساسات اور جذبات کی گہرائی کو ادب میں شامل کیا۔ اس دور میں فراق گورکھپوری، احمد فراز، اور دیگر معروف شاعروں کے ساتھ خواتین شاعروں جیسے پروین شاکر، فہمیدہ رشتہ، اور ہاجرہ مسرور نے اردو شاعری میں نسائی حسیت کو ایک منفرد شناخت دی۔ ان شاعروں کی تخلیقات میں محبت، درد، آزادی، اور صنفی تفاوت جیسے موضوعات کو بڑی خوبصورتی اور حقیقت پسندی سے بیان کیا گیا، جو اردو شاعری میں نئے فنی اور فکری رجحانات کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔