بشریٰ رحمان اردو ادب میں ایک معتبر اور معروف افسانہ نگار کی حیثیت رکھتی ہیں جنہوں نے افسانے کو نہ صرف اپنی تخلیقی بصیرت اور فنی مہارت سے وسعت دی بلکہ اپنی نسائی شناخت اور نسائی شعور کو بھی اس میں سمو دیا۔ ان کے افسانوں میں عورت کی داخلی و خارجی دنیا، اس کے جذباتی کرب، رشتوں کی الجھنیں، سماجی دباؤ اور نفسیاتی مسائل بڑے مؤثر انداز میں سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے عورت کو محض مظلوم اور مجبور کردار کے طور پر نہیں دکھایا بلکہ اس کی قوت، اس کے خواب اور اس کی جدوجہد کو بھی نمایاں کیا۔ اس اعتبار سے بشریٰ رحمان کا افسانوی سرمایہ موضوع اور اسلوب دونوں حوالوں سے اردو ادب میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔
موضوعاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو بشریٰ رحمان کے افسانوں میں سب سے نمایاں موضوع عورت کی داخلی کیفیات اور اس کی ذات کی تلاش ہے۔ وہ عورت کے دل کی ان پرتوں کو وا کرتی ہیں جنہیں اکثر سماج اور مرد مرکز بیانیہ نظر انداز کرتا رہا ہے۔ ان کے افسانوں میں محبت ایک اہم موضوع ہے مگر یہ محبت محض رومانوی نہیں بلکہ اس میں قربانی، جدوجہد اور ایثار کے پہلو بھی شامل ہیں۔ ان کی خواتین کردار محبت کو اپنی شناخت اور وجود کے ساتھ جوڑتی ہیں اور اس کے ذریعے اپنی شخصیت کو نئی معنویت عطا کرتی ہیں۔
بشریٰ رحمان کے افسانوں میں رشتوں کی پیچیدگیوں کو بھی بڑی باریکی سے پیش کیا گیا ہے۔ وہ ماں اور بیٹی کے رشتے، شوہر اور بیوی کے تعلقات، دوستوں کے درمیان قربت، اور سماجی اداروں کے ساتھ عورت کے تعلق کو موضوع بناتی ہیں۔ ان رشتوں میں محبت، اعتماد، دھوکا، تنہائی اور قربانی جیسے عناصر شامل ہیں جو انسانی زندگی کو پیچیدہ بناتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں یہ پیچیدگیاں محض واقعاتی سطح پر نہیں بلکہ نفسیاتی اور فکری سطح پر بھی نمایاں ہوتی ہیں۔
ان کے افسانوں کا ایک اور موضوع سماجی ناانصافی اور عورت پر ہونے والا جبر ہے۔ وہ دکھاتی ہیں کہ کس طرح عورت کو روایت، اقدار اور سماجی دباؤ کے نام پر قربانی دینی پڑتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی واضح کرتی ہیں کہ عورت ان جبر اور ناانصافیوں کے باوجود اپنی شناخت قائم کرنے کی جدوجہد کرتی ہے۔ ان کے افسانوں کی عورت مظلوم ضرور ہے لیکن بے بس نہیں بلکہ اپنے اندر قوت اور عزم رکھتی ہے۔
بشریٰ رحمان کے افسانوں میں محبت اور رشتوں کے ساتھ ساتھ روحانی اور اخلاقی پہلو بھی نمایاں ہیں۔ ان کے کئی افسانے قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ انسانی زندگی کا اصل مقصد کیا ہے اور محبت یا ایثار کی اصل معنویت کہاں ہے۔ وہ اپنی کہانیوں میں اخلاقی قدروں کو بھی جگہ دیتی ہیں لیکن یہ اخلاقیات نصیحت کے طور پر نہیں بلکہ کہانی کے بیانیے میں مدغم ہو کر سامنے آتی ہیں۔
فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو بشریٰ رحمان کے افسانوں میں سب سے نمایاں خوبی ان کی زبان اور بیان کا سادہ مگر دلنشین ہونا ہے۔ ان کی تحریر میں سلاست ہے، وہ مشکل اور پیچیدہ تراکیب کے بجائے سادہ اور عام فہم الفاظ استعمال کرتی ہیں، لیکن ان الفاظ میں گہرا اثر ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں کی زبان قاری کے دل پر براہِ راست اثر ڈالتی ہے اور اس کے جذبات کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔
ان کی کہانیوں میں پلاٹ زیادہ تر سادہ اور واضح ہوتا ہے لیکن اس میں جذبات کی شدت اور کرداروں کی نفسیات کہانی کو گہرائی عطا کرتی ہے۔ وہ غیر ضروری طوالت یا پیچیدگی سے اجتناب کرتی ہیں اور سیدھے سادے انداز میں کہانی بیان کرتی ہیں۔ لیکن اس سادگی کے باوجود ان کے افسانوں میں ایک جمالیاتی لطف اور فکری گہرائی موجود رہتی ہے جو انہیں اہم بناتی ہے۔
کردار نگاری میں بشریٰ رحمان نے خاص کمال دکھایا ہے۔ ان کے کردار زیادہ تر عورتیں ہیں لیکن یہ عورتیں محض روایتی یا یک رخی نہیں بلکہ کثیرالجہتی شخصیت رکھتی ہیں۔ وہ محبت کرنے والی بھی ہیں اور احتجاج کرنے والی بھی، وہ ایثار کرنے والی بھی ہیں اور اپنی آزادی کا دعویٰ کرنے والی بھی۔ ان کرداروں کے ذریعے بشریٰ رحمان نے عورت کی مختلف جہتوں کو سامنے لایا ہے اور اسے محض تابع اور مجبور کردار کے طور پر پیش کرنے سے انکار کیا ہے۔
بیانیے کی تکنیک کے اعتبار سے ان کے افسانے زیادہ تر روایتی اسلوب پر مبنی ہیں، لیکن ان میں بعض اوقات داخلی خودکلامی اور شعور کی رو کے عناصر بھی ملتے ہیں۔ یہ تکنیک ان کے کرداروں کی داخلی دنیا کو سامنے لاتی ہے اور قاری کو ان کی نفسیاتی کیفیتوں سے براہِ راست آشنا کرتی ہے۔
ان کے افسانوں میں علامت اور استعارے کا استعمال بھی ملتا ہے لیکن یہ استعمال پیچیدہ یا مشکل نہیں ہوتا بلکہ سیدھے سادے اور بامعنی انداز میں ہوتا ہے۔ وہ عام اشیاء یا حالات کو بھی علامتی رنگ دے کر گہرے مفاہیم پیدا کر دیتی ہیں۔ یہ انداز ان کی کہانیوں کو ایک جمالیاتی اور فکری پہلو عطا کرتا ہے۔
تنقیدی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو بشریٰ رحمان کے افسانے اردو افسانے کی اس روایت سے جڑے ہوئے ہیں جو عورت کی داخلی اور خارجی زندگی کو موضوع بناتی ہے۔ ان کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے عورت کے تجربے کو نہ صرف جذباتی اور نفسیاتی سطح پر بلکہ سماجی اور اخلاقی سطح پر بھی پیش کیا۔ ان کے افسانے قاری کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ عورت محض مظلوم اور محکوم نہیں بلکہ ایک مکمل انسان ہے جس کی اپنی سوچ، اپنی خواہشات اور اپنی جدوجہد ہے۔
اس طرح موضوعاتی اور فنی اعتبار سے بشریٰ رحمان کے افسانے اردو ادب میں ایک اہم اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی سادہ مگر پراثر زبان، جاندار کردار نگاری اور موضوعات کی وسعت کے ذریعے افسانے کو نئی معنویت عطا کی اور خاص طور پر عورت کی دنیا کو ادب میں بھرپور انداز میں اجاگر کیا۔