کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

براہوی اور اردو کا تقابلی مطالعہ

برصغیر جنوبی ایشیا مختلف زبانوں، ثقافتوں اور تہذیبوں کا گہوارہ رہا ہے، جہاں مختلف لسانی خاندانوں سے تعلق رکھنے والی زبانیں صدیوں سے یکجا بستی چلی آ رہی ہیں۔ ان میں اردو زبان ایک قومی و رابطے کی زبان کے طور پر ابھری ہے جبکہ براہوی زبان ایک قدیم اور منفرد لسانی روایت کی حامل زبان ہے جو بلوچستان کے خطے میں بولی جاتی ہے۔ اردو کا تعلق ہند-آریائی لسانی خاندان سے ہے جبکہ براہوی کو ڈراوڑی (Dravidian) خاندان کی زبان سمجھا جاتا ہے، جو اسے پاکستان میں ایک نادر و نایاب لسانی مظہر بناتی ہے۔ ان دونوں زبانوں کا تقابلی مطالعہ ہمیں نہ صرف لسانیات کی دنیا میں ایک دلچسپ منظرنامہ فراہم کرتا ہے بلکہ اس سے پاکستان کی تہذیبی و ثقافتی تنوع کی گہرائیوں کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

اردو زبان ہند-آریائی زبانوں کی شاخ ہے جس پر فارسی، عربی، ترکی اور سنسکرت کا گہرا اثر رہا ہے۔ اردو کا بنیادی ڈھانچہ فارسی رسم الخط اور ہندی ذخیرۂ الفاظ پر مبنی ہے۔ اس کے جملوں کی ساخت، محاورات اور افعال کا نظام شمالی ہندوستانی زبانوں سے مشابہت رکھتا ہے۔ اردو نے مغل دربار، صوفی روایت، اور بعد ازاں نوآبادیاتی عمل کے دوران ایک مشترکہ ثقافتی زبان کی حیثیت اختیار کی۔

اس کے برعکس، براہوی زبان کا تعلق ڈراوڑی زبانوں سے ہے جو جنوبی ہند، خاص طور پر تمل، تلگو اور کنڑ زبانوں میں پائی جاتی ہیں۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ براہوی زبان جغرافیائی طور پر ڈراوڑی مرکز سے ہزاروں کلومیٹر دور بولی جاتی ہے، جس نے محققین کو حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ براہوی زبان کی ساخت (Syntax)، ضمیری نظام، اور صوتی خصوصیات ڈراوڑی لسانی اصولوں کے مطابق ہیں، جبکہ اس نے وقت کے ساتھ ساتھ اردگرد کی زبانوں—خاص طور پر بلوچی، پشتو، فارسی اور اردو—سے گہرے اثرات قبول کیے ہیں۔

اردو اور براہوی دونوں زبانیں اپنے صوتی نظام (Phonology) میں مختلف ہیں۔ اردو میں حروفِ تہجی عربی و فارسی سے مستعار لیے گئے ہیں اور اس میں کئی “مخرجی” آوازیں (مثلاً خ، غ، ح، ق) پائی جاتی ہیں جو براہوی میں کم یا مختلف انداز میں ادا کی جاتی ہیں۔ براہوی زبان میں بعض ایسی آوازیں بھی ہیں جن کا اردو میں متبادل موجود نہیں، جیسے ناک سے نکلنے والی بعض مخصوص صوتی اقسام۔

صرفی اور نحوی اعتبار سے اردو زیادہ تر Subject-Object-Verb (SOV) ترتیب رکھتی ہے، جب کہ براہوی بھی اسی ترتیب کو فالو کرتی ہے، تاہم افعال سازی، صیغے، اور ضمیری نظام میں براہوی زیادہ پیچیدہ اور مقامی ساخت کی حامل ہے۔ اردو کا نحوی نظام فارسی و عربی کے اثرات سے سادہ اور شاعرانہ ہے، جب کہ براہوی میں تحویلی افعال، ضمیر کی تبدیلی، اور “ایگریمنٹ” کا ڈھانچہ زیادہ گہرائی رکھتا ہے۔

اردو کا ذخیرۂ الفاظ زیادہ تر فارسی، عربی، ترکی اور سنسکرت سے اخذ کردہ ہے، جب کہ براہوی نے مقامی الفاظ کے ساتھ ساتھ بلوچی، فارسی اور اردو سے متعدد الفاظ مستعار لیے ہیں۔ روزمرہ بول چال میں براہوی بولنے والے افراد اکثر اردو الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، خاص طور پر تعلیم، حکومت، اور جدید علوم سے متعلق الفاظ کے لیے۔ اس کے برعکس، اردو میں براہوی کے الفاظ بہت کم داخل ہوئے ہیں، جو لسانی طاقت کے توازن کو ظاہر کرتا ہے۔

اردو کا رسم الخط فارسی-عربی طرز کا ہے جسے نستعلیق میں لکھا جاتا ہے۔ یہ خط پیچیدہ مگر جمالیاتی طور پر دلکش ہے۔ براہوی زبان ماضی میں زبانی روایت تک محدود رہی، مگر موجودہ دور میں اسے عربی-فارسی رسم الخط میں لکھا جا رہا ہے، خاص طور پر بلوچی کے قریب ترین شکل میں۔ اس کے باوجود براہوی کے لیے کوئی مستحکم، معیار شدہ رسم الخط متفقہ طور پر رائج نہیں ہو سکا، جس کی وجہ سے اس کی تحریری روایت محدود اور غیر مستحکم ہے۔

اردو ادب میں فکشن، شاعری، ڈراما، سوانح اور تحقیق کی تمام اصناف ترقی پا چکی ہیں۔ اردو کی شعری روایت غالب، میر، اقبال، فیض، منٹو، بیدی اور قرۃ العین جیسے بڑے ناموں سے مالا مال ہے۔ اردو ایک تہذیبی، فکری، اور قومی زبان بن کر سامنے آئی ہے۔

براہوی ادب اگرچہ محدود رہا، تاہم اس میں زبردست لوک شاعری، کہانی، ضرب الامثال، اور رزمیہ روایت پائی جاتی ہے۔ براہوی کے اہم شعرا اور ادیبوں میں عبدالرزاق بازگر، محمد حسن بروہی، عطاء شاد وغیرہ شامل ہیں جنہوں نے زبان کو ادبی سمت عطا کی۔ براہوی شاعری میں عشق، غیرت، فطرت، علاقائی وفاداری، اور قبائلی تہذیب کے عناصر نمایاں ہیں۔

اردو کو پاکستان کی قومی اور تعلیمی زبان کی حیثیت حاصل ہے اور یہ میڈیا، تعلیمی اداروں، عدالتی و حکومتی امور کی بنیادی زبان ہے۔ براہوی، برعکس اس کے، علاقائی زبان ہے جس کا استعمال بلوچستان کے مخصوص علاقوں تک محدود ہے، اگرچہ براہوی بولنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اردو زبان کو ریاستی سرپرستی حاصل ہے جب کہ براہوی کو زبانوں کے تحفظ کے عالمی معیارات کے مطابق “غیر محفوظ” (endangered) زبانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

براہوی اور اردو زبان کا تقابلی مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اگرچہ دونوں زبانیں مختلف لسانی خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں، مگر پاکستان کی سرزمین پر ان کا تعامل ایک زبردست تہذیبی تنوع کو ظاہر کرتا ہے۔ اردو نے قومی زبان کے طور پر جہاں ہم آہنگی پیدا کی، وہیں براہوی جیسی زبانیں پاکستان کے لسانی ورثے کی انمول نشانیاں ہیں۔ اردو کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ان زبانوں کو جذب کرے، ان سے سیکھے اور انہیں اظہار کا وسیع پلیٹ فارم فراہم کرے، جبکہ براہوی کے تحفظ، تدریس، اور فروغ کے لیے ادارہ جاتی سطح پر اقدامات ضروری ہیں تاکہ یہ زبان بھی آنے والی نسلوں تک اپنی شناخت اور شان کے ساتھ منتقل ہو سکے۔

یوں اردو اور براہوی کا تقابلی مطالعہ ایک طرف لسانیات کے طالب علم کے لیے دلچسپ تحقیقی میدان ہے تو دوسری طرف یہ پاکستان کے کثیر الثقافتی، کثیر لسانی معاشرے کی نمائندگی اور وحدت کے فہم کو بھی فروغ دیتا ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں