کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

باباے اردو مولوی عبد الحق بطور محقق

بابائے اردو مولوی عبد الحق اردو زبان و ادب کی تاریخ میں ایک ایسا عظیم اور ناقابلِ فراموش نام ہیں جنہوں نے اردو کو نہ صرف ایک زندہ، ترقی یافتہ اور علمی زبان بنانے کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کی بلکہ اردو تحقیق، تدوین، لغت نویسی، ترجمہ، تذکرہ نویسی، تاریخ نگاری اور لسانیات کے ہر گوشے میں بنیادی، ہمہ جہت اور پائیدار خدمات انجام دیں۔ ان کی علمی زندگی کا ایک اہم پہلو اُن کی تحقیقی کاوشیں ہیں، جن کے ذریعے انہوں نے اردو زبان کی قدامت، اس کا تہذیبی پس منظر، ادبی تاریخ، اسلوبی ارتقا، شعری و نثری اصناف کی ترقی اور اردو کے ماضی و حال کے علمی سرمائے کو محفوظ اور مستند انداز میں مرتب کیا۔ مولوی عبد الحق کا شمار ان محققین میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو تحقیق کو ایک باقاعدہ علمی ڈسپلن کی صورت دی اور اسے محض تاثرات یا روایت نگاری سے نکال کر دلیل، سند، تجزیے، حوالوں اور موازناتی بنیادوں پر استوار کیا۔

مولوی عبد الحق کی تحقیق کا اولین دائرہ اردو زبان کی تاریخ سے متعلق تھا۔ ان کی کتاب “تاریخِ زبانِ اردو” ایک اہم علمی کارنامہ ہے، جس میں انہوں نے اردو زبان کی ابتدا، ارتقا، لسانی اثرات، علاقائی بولیوں سے تعلق، اور فارسی و عربی کے باہمی میل سے پیدا ہونے والی ساخت کو نہایت مدلل اور مستند انداز میں پیش کیا۔ ان کا یہ تحقیقی اسلوب اس دور میں خاصا نیا تھا، جب زبان و بیان کی تاریخ کو محض قیاس اور روایات کی بنیاد پر سمجھا جاتا تھا۔ عبد الحق نے لسانیات، صوتیات اور تاریخی اسناد کے ذریعے اردو کی تاریخ کو محض بیانیہ نہیں، بلکہ تحقیقی تجربہ بنا دیا۔ ان کا یہ کارنامہ آج بھی اردو کے طلبہ اور محققین کے لیے بنیادی مآخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔

بطور محقق ان کی سب سے بڑی خدمت اردو لغت نویسی ہے۔ انجمن ترقی اردو کے تحت انہوں نے اردو لغت کے جو منصوبے شروع کیے، وہ آج کے ضخیم لغات کی بنیاد ہیں۔ مولوی عبد الحق نے صرف الفاظ کے معانی یا مترادفات پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ لغت کو ایک تحقیقی متن میں تبدیل کر دیا۔ ان کی لغت نویسی میں تاریخی شواہد، ادبی مثالیں، ماخذ کی نشان دہی اور لفظ کے معنوی ارتقا کی جھلک ملتی ہے، جو کسی بھی محقق کے لیے قیمتی اثاثہ ہے۔ ان کی نگرانی میں اردو جامع لغت اور دیگر کئی لغوی منصوبے مکمل ہوئے، جن سے آج بھی علمی دنیا استفادہ کر رہی ہے۔

تحقیقی سطح پر مولوی عبد الحق کی خدمات کا ایک اور پہلو اردو متون کی تدوین ہے۔ انہوں نے کئی اہم ادبی متون کو نہ صرف نئے سرے سے مرتب کیا بلکہ ان پر مقدمات، حواشی، تعلیقات اور تنقیدی نوٹس بھی شامل کیے، جو تحقیقی روایت کا سنگِ میل ہیں۔ ان کی تدوین میں ہمیں صحتِ متن، تحقیقِ متن، نسخوں کے تقابل، املائی درستی اور تاریخی وضاحت کا امتزاج ملتا ہے۔ انہوں نے خاص طور پر اردو نثر کے ابتدائی نمونوں جیسے “باغ و بہار”، “سب رس”، “نکات الشعراء”، “گلزار نسیم” وغیرہ کو مرتب کر کے ان کی اصل حالت میں پیش کیا۔ ان کے مقدمات میں صرف تعارف نہیں بلکہ مصنف کے حالات، عہد کا پس منظر، اسلوب کی نوعیت، ادبی حیثیت اور لسانی تجزیہ بھی شامل ہوتا ہے، جو تحقیق و تنقید کا حسین امتزاج ہے۔

مولوی عبد الحق کے تحقیقی ذوق کی ایک جھلک اردو تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری میں بھی ملتی ہے۔ ان کا طرزِ تحقیق نہایت باریک بین، حوالہ دار، اور تاریخی حقائق پر مبنی ہوتا ہے۔ انہوں نے غالب، سرسید، حالی، شبلی اور دوسرے مشاہیر پر تحقیقی مضامین لکھے جن میں صرف شخصیت کا احوال نہیں بلکہ ان کی علمی، فکری، ادبی اور لسانی خدمات کا تفصیلی تجزیہ بھی شامل ہوتا ہے۔ انہوں نے اردو ادب کے بڑے شعرا کے کلام کو بھی تحقیقی نظر سے پرکھا اور ان کی فکری جہات کو اجاگر کیا۔

ایک محقق کی حیثیت سے مولوی عبد الحق کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے تحقیق کو اردو علمی روایت کا ایک لازمی حصہ بنایا۔ انہوں نے نئی نسل کے محققین کو تحقیق کے اصول سکھائے، ان کے لیے مواد مہیا کیا، اور انجمن ترقی اردو کے تحت ایک ادارہ جاتی ڈھانچہ قائم کیا جس میں اردو تحقیق منظم، باقاعدہ اور مربوط طریقے سے انجام دی جا سکے۔ ان کے تربیت یافتہ افراد بعد ازاں اردو تحقیق کے کئی اہم ستون بنے۔ مولوی عبد الحق نے تحقیق کو محض لکھنے کا فن نہیں بلکہ تلاش، تجزیے، ثبوت، تاریخی فہم، لسانی آگہی، اور فکری دیانت کا نام بنایا۔

مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ مولوی عبد الحق بطور محقق اردو کے ان محسنوں میں شامل ہیں جنہوں نے نہ صرف اردو کے ماضی کو محفوظ کیا بلکہ اس کی زبان، ادب، تاریخ اور تہذیب کے تشخص کو علمی بنیادوں پر استوار کیا۔ ان کی تحقیق کی خصوصیت علمی دیانت، وسعتِ مطالعہ، حوالہ جاتی پختگی، لسانی شعور، اور تدوینی مہارت ہے۔ انہوں نے اردو تحقیق کو ایک معیاری، علمی اور باقاعدہ عمل بنایا جس کی بنیاد پر آج اردو تحقیق کی درس و تدریس جاری ہے۔ ان کی خدمات کے بغیر اردو زبان کا علمی، ادبی اور تحقیقی منظرنامہ نامکمل تصور کیا جائے گا۔ ان کا تحقیقی اسلوب آج بھی محققین کے لیے رہنما ہے اور وہ بجا طور پر “بابائے اردو” کہلانے کے مستحق ہیں۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں