کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اکیسویں صدی کے اردو ناول میں اسلوب کا مطالعہ

اکیسویں صدی کے اردو ناول میں اسلوب کا مطالعہ ایک نہایت دلچسپ اور پیچیدہ موضوع ہے کیونکہ اس صدی کے آغاز سے اب تک اردو ناول میں جن تبدیلیوں نے جنم لیا ہے وہ براہِ راست اسلوبیاتی سطح پر بھی اثر انداز ہوئیں۔ اسلوب دراصل ادیب کے اظہار کا وہ طریقہ ہے جس میں زبان، بیان، تکنیک، بیانیہ اور فکری جہتیں سب شامل ہوتی ہیں۔ اردو ناول کی ابتدائی تاریخ سے ہی یہ بات نمایاں رہی ہے کہ ہر بڑے ناول نگار نے اپنی انفرادی اسلوبیاتی پہچان قائم کی، لیکن اکیسویں صدی میں یہ پہچان اور بھی نمایاں اور کثیرالجہتی ہو گئی ہے کیونکہ اب ناول صرف قصے یا پلاٹ کی کہانی نہیں رہا بلکہ یہ ایک فکری و تہذیبی تجربہ، وجودی کرب اور جمالیاتی اظہار کی کثیر سطحی صورت اختیار کر چکا ہے۔

اکیسویں صدی کے اردو ناول میں سب سے نمایاں تبدیلی اسلوب کی سطح پر یہ سامنے آئی کہ اب زبان میں غیر ضروری تصنع اور بھاری بھرکم ترکیبوں کے بجائے ایک سادہ لیکن تہہ دار اور علامتی رنگ اختیار کیا گیا ہے۔ اسلوب میں سلاست اور روانی کو ترجیح دی گئی لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے فکری گہرائی اور معنوی ابہام سے ہمکنار کیا گیا ہے۔ خالد جاوید کے ناولوں کو دیکھیں تو ان کے ہاں زبان ایک علامتی اور استعاراتی پیکر میں ڈھلتی ہے۔ ان کا اسلوب قاری کو سطحی بیان سے آگے لے جاتا ہے اور ایک ایسی دنیا میں پہنچا دیتا ہے جہاں وجودی کرب اور نفسیاتی پیچیدگی نمایاں ہوتی ہے۔ خالد جاوید کے ناول ’’موت کی کتاب‘‘ اور ’’نمرود کی کھچڑی‘‘ اس بات کی عمدہ مثال ہیں کہ اکیسویں صدی کے ناول میں اسلوب کس طرح ایک مجرد فلسفیانہ اور علامتی ڈھانچے کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔

اکیسویں صدی کے اردو ناول میں اسلوبیاتی تغیر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بیانیے میں روایتی خطی تسلسل کی بجائے غیر خطی ساخت کو اختیار کیا گیا ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل کو ایک ہی سطح پر رکھ کر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ تکنیک قاری کو وقت کی لکیری قید سے نکال کر ایک ایسی دنیا میں لے جاتی ہے جہاں مختلف ادوار اور تجربات یکجا ہو جاتے ہیں۔ مرزا اطہر بیگ کے ناول ’’غلام باغ‘‘ اور ’’صفر سے ایک‘‘ میں یہی اسلوبیاتی پہلو ملتا ہے۔ ان کے ہاں بیانیہ ایک بھول بھلیاں کی طرح ہے جہاں قاری کو واقعات اور کرداروں کے مختلف جہتوں کو خود سمجھنا اور ترتیب دینا پڑتا ہے۔ یہ تجربہ اردو ناول کے اسلوب کو جدید عالمی فکشن کے قریب لے آتا ہے۔

اکیسویں صدی کے اردو ناول میں اسلوب کا ایک اور نمایاں پہلو بین المتونیت ہے۔ ناول نگار اب صرف اپنی کہانی نہیں سناتا بلکہ اس میں دیگر متون، تاریخی حوالوں، مذہبی اساطیر اور فلسفیانہ بیانیوں کو بھی شامل کرتا ہے۔ یہ اسلوبیاتی تجربہ ناول کے معنی کو وسعت دیتا ہے اور اسے محض بیانیہ فن کے بجائے فکری و تہذیبی مکالمے میں بدل دیتا ہے۔ اس اسلوبیاتی تکنیک کو قرۃ العین حیدر نے بیسویں صدی میں جس انداز میں استعمال کیا تھا، اکیسویں صدی میں اس کی نئی صورت خالد جاوید اور مرزا اطہر بیگ کے ناولوں میں نظر آتی ہے۔

اکیسویں صدی کے ناول میں اسلوبیاتی سطح پر مکالمے کی ایک نئی جہت بھی سامنے آئی ہے۔ کرداروں کے درمیان مکالمہ محض معلوماتی یا کہانی آگے بڑھانے کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ یہ فلسفیانہ اور وجودی سوالات کا اظہار بن گیا ہے۔ کردار اپنے مکالموں میں نہ صرف اپنی نفسیاتی کیفیتیں بیان کرتے ہیں بلکہ زندگی اور موت، خدا اور انسان، معاشرت اور تہذیب جیسے موضوعات پر بھی اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ اس طرح مکالمہ اسلوب کا ایک بنیادی عنصر بن گیا ہے۔

اکیسویں صدی کے اردو ناول میں اسلوب کے مطالعے کا ایک اہم پہلو عورت ناول نگاروں کا اظہار ہے۔ نور الہدی شاہ، فرحت پروین اور عصمت جہاں جیسی خواتین ناول نگاروں نے اپنے اسلوب میں نسائی تجربات اور عورت کی داخلی کائنات کو شامل کیا۔ ان کے اسلوب میں ایک طرح کی داخلی خود کلامی اور نسائی شعور کی جھلک ملتی ہے جو اکیسویں صدی کے ناول کو ایک نیا رنگ عطا کرتی ہے۔ ان کے ہاں زبان نرم لیکن کرب انگیز ہے اور اسلوب میں ایک ایسی شدت ہے جو عورت کی داخلی دنیا کو پوری قوت کے ساتھ سامنے لاتی ہے۔

اکیسویں صدی کے اردو ناول میں طنزیہ اور مزاحیہ اسلوب کی بھی جھلک ملتی ہے۔ کچھ ناول نگاروں نے اسلوب کو اس طرح برتا ہے کہ قاری کو نہ صرف فکری تجربہ حاصل ہوتا ہے بلکہ وہ سماجی اور سیاسی تضادات پر ہنس بھی سکتا ہے۔ یہ اسلوبیاتی رویہ ناول کو زندگی کے قریب تر کرتا ہے اور قاری کے ساتھ اس کا رشتہ مضبوط کرتا ہے۔

اسلوب کے تنقیدی مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اکیسویں صدی کے اردو ناول نے اپنے اسلوب میں تین بڑی تبدیلیاں کی ہیں۔ پہلی تبدیلی زبان اور بیان کے حوالے سے ہے جہاں سلاست، علامت نگاری اور فلسفیانہ ابہام کو اہمیت دی گئی۔ دوسری تبدیلی بیانیہ تکنیک کے حوالے سے ہے جہاں خطی پلاٹ کی بجائے غیر خطی بیانیہ اور بین المتونیت کو اپنایا گیا۔ تیسری تبدیلی کردار نگاری اور مکالمے کے حوالے سے ہے جہاں کرداروں کے ذریعے گہرے فکری اور وجودی سوالات اٹھائے گئے۔

ان تبدیلیوں نے اردو ناول کو نہ صرف نئی جمالیاتی جہت عطا کی بلکہ اسے عالمی ادب کی صف میں بھی نمایاں مقام دیا۔ اکیسویں صدی کے ناول نگاروں نے اسلوب کو محض اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک فکری تجربہ بنا دیا ہے۔ اسلوب اب ناول کا صرف لسانی پہلو نہیں رہا بلکہ یہ اس کی معنوی اور فکری بنیاد بن گیا ہے۔ اکیسویں صدی کا اردو ناول اپنی اسلوبیاتی وسعت اور فکری جہات کے باعث اردو ادب کی تاریخ میں ایک نمایاں اور منفرد حیثیت رکھتا ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں