اکیسویں صدی میں اردو ناول میں بیانیے کا تنوع اس صنف کی ارتقائی جہتوں، اسلوبیاتی تجربات اور فکری وسعت کو نمایاں کرتا ہے۔ جدید اردو ناول میں روایتی بیانیے سے انحراف کرتے ہوئے کثیرالجہتی، مابعد جدید تکنیکوں، داخلی خودکلامی، فلیش بیک، اور بین المتونی عناصر کو اپنایا گیا ہے، جس سے اس صنف میں ایک نئی جہت پیدا ہوئی ہے۔ اس صدی میں اردو ناول صرف سماجی مسائل یا تاریخی بیانیے تک محدود نہیں رہا بلکہ نفسیاتی، سائنسی، فلسفیانہ اور ماحولیاتی موضوعات کو بھی اپنے دائرے میں سمو رہا ہے۔ بیانیے میں ایک طرف حقیقت نگاری اور علامتی اسلوب کا امتزاج ہے، تو دوسری طرف خودکلامی، فکشن اور تاریخ کے باہمی امتزاج نے اسے مزید ہمہ گیر بنا دیا ہے۔ اس صدی کے ناول نگاروں میں مرزا اطہر بیگ، محمد حنیف، مستنصر حسین تارڑ، اور خالد جاوید جیسے نام نمایاں ہیں، جنہوں نے بیانیے کے جدید طریقے اپناتے ہوئے اردو ناول کو عالمی ادب کے جدید رجحانات سے ہم آہنگ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چنانچہ اکیسویں صدی میں اردو ناول کا بیانیہ اپنی وسعت، تنوع اور تجرباتی جہتوں کے باعث ایک نئی ادبی پہچان قائم کر رہا ہے۔