انتظار حسین کی افسانہ نگاری میں وجودی عناصر کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ہمیں ان کے تخلیقی عمل اور فکری جہات کی ایک گہری اور معنی خیز تفہیم فراہم کرتا ہے۔ انتظار حسین کے افسانے ایک ایسے فکری و جذباتی کینوس پر تخلیق کیے گئے ہیں جہاں ماضی، حال، اور مستقبل کی کشمکش میں گھرے کردار نہ صرف داخلی اور خارجی تضادات کا سامنا کرتے ہیں بلکہ اپنی ذات کی تلاش میں ایک مستقل بے چینی اور عدم اطمینان کا شکار رہتے ہیں۔ ان کے ہاں وجودیت کا بنیادی تصور، یعنی انسان کی اپنی زندگی کے معنوں کی تلاش، اس کی تنہائی، بے یقینی، اور تقدیر کے خلاف اس کی مزاحمت، نہایت واضح انداز میں سامنے آتا ہے۔ ان کے افسانے “آخری آدمی”، “شہر افسوس”، “کایا کلپ”، اور “دیوار کے پیچھے” اس وجودی کرب کے نمائندہ ہیں جہاں کردار ایک ایسے زمان و مکاں میں مقید محسوس ہوتے ہیں جہاں وقت ایک چکر کی صورت اختیار کر لیتا ہے، اور ان کی زندگی بے معنویت اور ناآسودگی کا شکار ہو جاتی ہے۔ انتظار حسین کے کردار نوآبادیاتی اور مابعد نوآبادیاتی سماجی و ثقافتی منظرنامے میں ایک گہری داخلی بے چینی کا سامنا کرتے ہیں، جہاں ان کی شناخت کا بحران اور ذات کی تلاش ایک مسلسل سفر کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ان کے ہاں مذہبی اور اساطیری حوالوں کے ساتھ ساتھ جدیدیت کے اثرات بھی نظر آتے ہیں، جو وجودی فلسفے کے کئی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ بیگانگی، وقت کی شکستگی، یادوں کا بوجھ، اور ماضی کی گرفت میں جکڑے رہنے کا المیہ ان کے افسانوں میں گہرے وجودی رنگ بھر دیتا ہے۔ انتظار حسین کی افسانہ نگاری میں فرد کی اپنی ذات سے بیگانگی، ایک ناآسودہ تلاش، اور معاشرتی زوال کے خلاف اس کی خاموش مزاحمت ان کے بیانیے کو ایک ایسی فکری گہرائی عطا کرتی ہے جو اردو افسانے میں منفرد مقام رکھتی ہے۔ اس لحاظ سے، انتظار حسین کے افسانے وجودی ادب کی ایک اہم مثال کے طور پر ابھرتے ہیں، جہاں انسان کی تنہائی، اس کے فیصلوں کی گونج، اور اس کی ذات کے گرد بُنے گئے پیچیدہ جال ایک نہ ختم ہونے والا سوال بن کر ابھرتے ہیں۔