علامہ اقبال کا اردو کلام فطرت نگاری میں ایک اہم مقام رکھتا ہے، جہاں انہوں نے فطرت کے مختلف پہلوؤں کو نہ صرف جمالیاتی بلکہ فلسفیانہ انداز میں پیش کیا۔ اقبال نے فطرت کو انسان کی روحانیت اور داخلی دنیا کے آئنہ کے طور پر دیکھا۔ ان کی شاعری میں فطرت کے مناظر، خصوصاً پہاڑ، دریا، اور آسمان، انسانی خواہشات، تقدیر، اور کائنات کے رازوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ اقبال کے مطابق، فطرت انسان کو بلند حوصلہ اور خودی کی ترقی کی جانب راغب کرتی ہے، اور ان کے کلام میں فطرت کا یہ عکاس انسان کی اندرونی قوت اور مقصد کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔اگر ہم اقبال کے کلام کا تقابلی جائزہ کسی ہم عصر شاعر، مثلاً فیض احمد فیض سے کریں، تو دونوں شاعروں کے یہاں فطرت کا تصور مختلف انداز میں نظر آتا ہے۔ فیض کی شاعری میں فطرت کو زیادہ تر سماجی اور سیاسی پس منظر میں پیش کیا گیا ہے، جہاں فطرت کے مناظر انسانی دکھ اور غم کی علامت بنتے ہیں۔ فیض کی شاعری میں فطرت کی جمالیاتی حقیقتیں سماج کی بگڑتی ہوئی حالت، ظلم و جبر اور انسانوں کے درد کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں اقبال کی شاعری میں فطرت زیادہ فلسفیانہ اور روحانی طور پر پیش کی گئی ہے، جہاں فطرت کو خودی کی تعمیر اور انسان کے مقصد کی جستجو کا ایک وسیلہ سمجھا گیا ہے۔