اعظم گڑھ میں اردو شاعری کا ارتقا ایک تاریخی اور ادبی تسلسل کا نتیجہ ہے، جہاں کے شعراء نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے اردو ادب کو ایک منفرد رنگ دیا۔ یہ علاقہ ابتدا ہی سے علم و ادب کا مرکز رہا ہے اور یہاں کے اہلِ قلم نے شاعری میں کلاسیکی اور جدید رجحانات کو سمویا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں اعظم گڑھ کے شاعروں نے روایتی طرزِ بیان کو برقرار رکھتے ہوئے جدید خیالات اور سماجی شعور کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ یہاں شبلی نعمانی جیسے ادیب اور محقق بھی گزرے جنہوں نے اردو شاعری کے نظریاتی اور فکری مباحث کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔ اسی طرح، راشد الخیری، جلیل مانکپوری، اور دیگر شاعروں نے اپنی تخلیقات سے اردو شاعری کو وسعت دی اور اسے نئے میلانات سے روشناس کرایا۔ ترقی پسند تحریک کے دوران بھی اعظم گڑھ کے شعرا نے بھرپور حصہ لیا اور اپنے اشعار میں سماجی مسائل، استحصالی نظام اور عوامی جذبات کی ترجمانی کی۔ جدید دور میں بھی یہاں کے شعرا نے اردو غزل اور نظم میں نت نئے تجربات کیے اور اس خطے کی ادبی روایت کو آگے بڑھایا۔ الغرض، اعظم گڑھ کی اردو شاعری کا ارتقا ایک مسلسل عمل ہے جو کلاسیکی ادب سے لے کر جدید رجحانات تک پھیلا ہوا ہے اور اس کی بدولت اردو ادب میں ایک منفرد اور قیمتی اضافہ ہوا ہے۔