اردو نثر کے اسالیب کا آغاز سے غالب کی وفات تک کا دور ایک ارتقائی سفر کی عکاسی کرتا ہے، جس میں زبان و بیان کے انداز، موضوعات، اور ادبی روایات میں مختلف تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ابتدائی دور میں اردو نثر مذہبی، تاریخی اور تعلیمی مقاصد کے تحت لکھی گئی، جس میں دکن کے علماء اور ادباء کا اہم کردار رہا۔ اس زمانے میں نثر زیادہ تر سادہ اور رواں ہوتی تھی، جس کا مقصد عوام کو اپنے خیالات سے روشناس کرانا تھا۔ اسلوب میں زیادہ تر مذہبی کتابوں کی تاثیر نظر آتی تھی، جیسا کہ ملا وجہی کی “سب رس” اور قلی قطب شاہ کا کام۔ انیسویں صدی کے آغاز میں اردو نثر نے زیادہ وسعت اور گہرائی اختیار کی۔ فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد نثر میں باقاعدگی آئی اور مختلف صنفوں جیسے داستان اور کہانی کو فروغ ملا۔ اس دور میں میر امن کی “باغ و بہار” اور مرزا رجب علی بیگ سرور کی “فسانہ عجائب” نے نثر کو سادہ اور دلچسپ اسلوب فراہم کیا، جو عوام اور خواص دونوں میں مقبول ہوا۔ اس وقت کی نثر میں زیادہ تر قصہ گوئی کا رجحان غالب رہا۔