اردو ادب میں نفسیاتی افسانہ نگاری کی روایت بیسویں صدی کے وسط میں نمایاں ہوئی جب افسانہ نگاروں نے انسانی ذہن، باطن، احساسات اور لاشعور کی دنیا کو تخلیقی اظہار کا مرکز بنایا۔ نفسیاتی افسانہ نگاری کا بنیادی مقصد انسان کے باطنی کرب، الجھنوں، احساسِ جرم، خوف، تنہائی اور محرومی کو اجاگر کرنا ہے۔ اگرچہ ابتدا میں اس رجحان کی نمائندگی مرد افسانہ نگاروں نے کی، لیکن خواتین افسانہ نگاروں نے اسے ایک نیا زاویہ، ایک نیا تجرباتی رنگ اور نسوانی احساس عطا کیا۔ ان کے افسانوں میں عورت کے باطن، اس کی نفسیاتی الجھنوں، اس کے وجودی کرب، اور معاشرتی دباؤ کے زیرِ اثر پیدا ہونے والے داخلی تصادم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
اردو کی خواتین افسانہ نگاروں نے اپنے فن کے ذریعے عورت کے ذہنی کرب اور احساسِ محرومی کو محض جذباتی انداز میں پیش نہیں کیا بلکہ نفسیاتی تجزیے کے ساتھ تخلیقی سطح پر برتا۔ قرۃ العین حیدر کے افسانوں میں ماضی اور حال کے ٹکراؤ سے جنم لینے والی داخلی شکستگی نمایاں ہے۔ ان کے کردار اکثر اپنے ماضی کی یادوں اور حال کی بے معنویت کے درمیان معلق نظر آتے ہیں۔ “سیتا ہرن”، “پات جھڑ کا موسم” اور “روشنی کی رفتار” جیسے افسانوں میں عورت کی نفسیاتی پیچیدگی اور وجودی اضطراب واضح محسوس ہوتا ہے۔ قرۃ العین حیدر کے کردار ظاہری طور پر مضبوط مگر اندر سے کمزور دکھائی دیتے ہیں۔ وہ جدید تعلیم یافتہ عورتوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو سماجی قدروں کے زوال سے نبردآزما ہیں اور اپنی شناخت کی تلاش میں خود سے الجھی رہتی ہیں۔
عصمت چغتائی کے افسانوں نے نفسیاتی حقیقت نگاری کو نسوانی شعور کے ساتھ جوڑ کر ایک نیا زاویہ فراہم کیا۔ ان کے یہاں عورت محض مظلوم نہیں بلکہ شعور و لاشعور کی سطح پر بیدار ہستی ہے۔ “لحاف” میں عورت کی نفسیاتی الجھن اور جسمانی و جذباتی محرومی کو جس رمزیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، وہ اردو افسانے میں ایک بڑی پیش رفت تھی۔ عصمت چغتائی نے عورت کے لاشعور کو سماجی منافقت کے پردوں میں سے نکال کر دکھایا۔ ان کے ہاں کرداروں کی نفسیاتی ساخت عموماً دبی ہوئی خواہشات، خوف، شرم اور بغاوت کے ملاپ سے تشکیل پاتی ہے۔ ان کے نزدیک عورت کی نفسیات کو سمجھنا سماجی ڈھانچے کی پرتیں کھولنے کے مترادف ہے۔
خدیجہ مستور کے افسانوں میں نفسیاتی شعور کا رنگ اور بھی گہرا ہو جاتا ہے۔ ان کے کردار اپنی داخلی دنیا میں قید ہیں اور بیرونی معاشرت سے ہم آہنگ ہونے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ “آنگن” جیسے ناول اور ان کے متعدد افسانوں میں عورت کی نفسیاتی کشمکش محض ذاتی نہیں بلکہ اجتماعی تناظر میں ابھرتی ہے۔ عورت کے ذہن میں جنم لینے والا خوف، احساسِ گناہ، اور محبت کے کھو جانے کا دکھ ان کی کہانیوں کی مرکزی فضا ہے۔ ان کے کردار بظاہر خاموش مگر اندر سے پکار اٹھنے والے انسان ہیں جو سماج کے جبر کے سامنے اپنی داخلی بغاوت کو چھپاتے ہیں۔
مسعودہ حیات، رضیہ فصیح احمد، خدیجہ مستور اور بانو قدسیہ کے افسانوں میں عورت کے باطن کی وہ پرتیں اجاگر ہوتی ہیں جن پر ماضی کے افسانہ نگاروں نے کم توجہ دی۔ بانو قدسیہ نے اپنی کہانیوں میں عورت کے لاشعور میں پنہاں روحانی، اخلاقی اور جذباتی تصادم کو بڑی باریکی سے محسوس کیا۔ “راہی”، “پیا نام کا دیا” اور دیگر افسانوں میں عورت کے احساسِ تنہائی اور محبت کی غیر متعین جستجو ایک نفسیاتی واردات کے طور پر سامنے آتی ہے۔ بانو قدسیہ نے کرداروں کی اندرونی کیفیات کو خارجی مظاہر کے بغیر بیان کرنے کی ایک نئی تکنیک متعارف کرائی۔ ان کے افسانے کسی خطی پلاٹ پر نہیں بلکہ نفسیاتی بہاؤ پر استوار ہوتے ہیں۔
قرۃ العین حیدر اور خدیجہ مستور کے مقابلے میں عصمت چغتائی کا انداز زیادہ جرات مندانہ اور اظہار میں براہِ راست ہے، جبکہ بانو قدسیہ نے نفسیات کو روحانی احساس کے ساتھ جوڑ کر عورت کے وجود کو ایک ماورائی جہت دی۔ ان سب کے افسانوں میں مشترکہ پہلو یہ ہے کہ عورت کے ذہن کو محض رومان یا مظلومیت کے پیرائے میں نہیں دکھایا گیا بلکہ اسے ایک مکمل نفسیاتی اور فکری پیکر کے طور پر پیش کیا گیا۔
اردو کی خواتین افسانہ نگاروں نے مرد مرکز معاشرتی قدروں کے مقابل ایک داخلی دنیا خلق کی، جہاں عورت اپنی ذات کے ساتھ مکالمہ کرتی ہے۔ اس مکالمے میں اس کی نفسیاتی بغاوت، خواب، محرومیاں اور ان دیکھی خواہشات سبھی شامل ہیں۔ یہ افسانے عورت کے ذہن کی ایسی تصویریں پیش کرتے ہیں جو روایتی تنقیدی پیمانوں سے ماورا ہیں۔ ان میں نہ صرف نفسیاتی حقیقت نگاری کا فنی حسن ہے بلکہ انسانی وجود کے گہرے اسرار و رموز کا انکشاف بھی ہے۔
اردو کے نفسیاتی افسانے، خصوصاً خواتین افسانہ نگاروں کے قلم سے نکلے ہوئے، انسانی باطن کی ترجمانی کے لحاظ سے اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان میں عورت کی ذات صرف جسمانی یا سماجی حوالوں سے نہیں بلکہ ذہنی اور روحانی سطح پر بھی دیکھی گئی ہے۔ یہ افسانے قاری کو اس داخلی جہان کی سیر کراتے ہیں جہاں جذبات، احساسات اور لاشعور کی دنیا ایک دوسرے میں مدغم ہو کر زندگی کی اصل معنویت کو واضح کرتی ہے۔ ان خواتین نے اردو افسانے کو محض ایک ادبی صنف نہیں رہنے دیا بلکہ انسانی نفسیات کی گہرائیوں تک لے جا کر اسے ایک فکری اور تہذیبی تجربہ بنا دیا۔



