کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو کی منظوم تمثیلیں

اردو ادب کی تاریخ میں منظوم تمثیل کا ایک نمایاں مقام ہے، جو ایک ادبی اور تہذیبی مظہر کے طور پر اپنی جڑیں فارسی، عربی اور ہندی کلاسیکی روایتوں میں رکھتا ہے، مگر اردو میں اسے ایک مخصوص ادبی صنف کی حیثیت انیسویں صدی میں ملی۔ منظوم تمثیل ایک ایسا بیانیہ ہے جو شعری پیرائے میں کسی اخلاقی، مذہبی، تہذیبی، سیاسی یا معاشرتی مسئلے کو ڈرامائی انداز میں پیش کرتا ہے، جس میں کردار، مکالمہ اور واقعہ نگاری کے اجزا نظم کی شکل میں ہوتے ہیں۔ اردو منظوم تمثیل کا آغاز زیادہ تر نصیحت، اصلاح اور مذہبی مقاصد سے ہوا، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس صنف میں تنوع، فکری گہرائی اور فنی پختگی آتی گئی۔ اس صنف کے ارتقا اور نمائندہ تخلیقات کا مطالعہ نہ صرف اردو شاعری کی وسعتوں کو واضح کرتا ہے بلکہ ان رجحانات کا بھی پتا دیتا ہے جو اردو ادب کو تھیٹر، ڈراما اور بیانیہ شاعری کی طرف لے کر گئے۔

اردو کی ابتدائی منظوم تمثیلوں میں اخلاقی تعلیم اور مذہبی تبلیغ کا رجحان غالب تھا۔ انیسویں صدی کے وسط میں جب برصغیر میں نوآبادیاتی اثرات بڑھنے لگے اور اصلاحی تحریکیں زور پکڑنے لگیں، تو اس دور میں شعر و ادب کو بھی عوامی اصلاح کا ذریعہ بنایا گیا۔ انیسویں صدی کے مشہور شاعروں نے جہاں مثنوی، مرثیہ اور قصیدہ میں اپنا کمال دکھایا، وہیں انہوں نے منظوم تمثیل کو بھی ایک ذریعہ اظہار بنایا۔ خاص طور پر فورٹ ولیم کالج اور دہلی کالج کی ادبی سرگرمیوں نے اس صنف کو فروغ دیا۔ اس دور کی منظوم تمثیلوں میں مذہبی قصے، اخلاقی کہانیاں اور معاشرتی روایات کا عکس ملتا ہے، جیسے “اندھیر نگری” جو اگرچہ نثری تمثیل کے طور پر معروف ہے، مگر اسی ماحول میں ایسی منظوم تمثیلوں نے جنم لیا جن میں حکایات کے قالب میں اصلاحی پیغام چھپا ہوتا تھا۔

منظوم تمثیل کی ترقی میں سر سید احمد خان کی علی گڑھ تحریک، مولانا حالی کی تعلیمی و ادبی کوششیں، اور نذیر احمد جیسے مصلحین کا بڑا کردار ہے۔ اس دور میں شاعری محض جذبات کے اظہار کا ذریعہ نہیں رہی، بلکہ ایک تعلیمی، تہذیبی اور اصلاحی مقصد کے لیے استعمال ہونے لگی۔ حالی کی مشہور مثنوی “مد و جزر اسلام” اگرچہ ایک مکمل تمثیل نہیں، تاہم اس میں تمثیل کی فضا، مکالماتی انداز اور تاریخ کو شخصی روپ میں پیش کرنے کا رجحان ملتا ہے، جو منظوم تمثیل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اسی طرح امیر مینائی اور الطاف حسین حالی جیسے شعرا نے جن نظموں میں واقعاتی یا کردار پر مبنی بیانیہ طرز اپنایا، وہ تمثیلی نظموں کے ابتدائی نقوش رکھتے ہیں۔

اردو منظوم تمثیل کے ارتقا میں اقبال کا کردار غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں کئی نظمیں ایسی ہیں جو فکری تمثیل کی حیثیت رکھتی ہیں، مثلاً “ابلیس کی مجلس شوریٰ”، “ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام”، “فرشتوں کا گیت” یا “طلوع اسلام”۔ یہ نظمیں نہ صرف فکری اور نظریاتی کشمکش کو پیش کرتی ہیں بلکہ ان میں کرداروں کے ذریعے ایک مابعد الطبیعیاتی یا تہذیبی ڈراما پیش کیا جاتا ہے۔ “ابلیس کی مجلس شوریٰ” میں شیطان اور اس کے مشیر دنیا کے حالات پر گفتگو کرتے ہیں، جس میں سیاست، معاشیات، تعلیم، مذہب، سب پر تمثیلی طرز میں تنقید کی گئی ہے۔ گو کہ اقبال کی یہ نظمیں روایتی منظوم تمثیل کے قالب میں نہیں ہیں، مگر ان کی تمثیلی ساخت، علامتی کردار، مکالماتی انداز، اور معنوی گہرائی انہیں تمثیل کے دائرے میں لے آتی ہیں۔ اقبال نے تمثیل کو فلسفہ، سیاست اور تہذیب کا آئینہ بنا دیا۔

اقبال کے بعد نظم نگاری میں تمثیل نگاری کا شعوری آغاز اختر شیرانی، جوش ملیح آبادی، حفیظ جالندھری اور مجاز جیسے شعرا نے کیا۔ جوش کی نظموں میں تاریخی اور انقلابی واقعات کو تمثیل کے رنگ میں پیش کیا گیا، جہاں وقت اور تاریخ خود کردار بن کر سامنے آتے ہیں۔ ان کی نظم “حسرتِ فردا” میں مستقبل کی پیشین گوئیوں کو ایک فکری تمثیل کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ مجاز کی نظموں میں بھی شہر، تہذیب، انسان اور ریاست جیسے تصورات کو استعارہ و تمثیل کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔

حفیظ جالندھری کی “شاہنامہ اسلام” ایک طویل منظوم تمثیل ہے، جس میں اسلام کی پوری تاریخ کو نظم کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ یہاں ہر تاریخی واقعہ ایک ڈرامائی رنگ رکھتا ہے، کردار، جذبات، مکالمہ اور واقعات کے تمام اجزا اس میں موجود ہیں۔ حفیظ نے اسلامی تاریخ کو تمثیلی انداز میں پیش کر کے ایک منفرد ادبی نمونہ تخلیق کیا۔ اگرچہ اس نظم کا اسلوب داستانوی اور رزمیہ ہے، مگر تمثیل کی فضا اسے ایک ڈرامائی ساخت عطا کرتی ہے۔

انیسوی صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں بعض شعرا نے براہِ راست منظوم ڈرامے بھی لکھے۔ ان میں آغا حشر کا نام نمایاں ہے جنہوں نے اگرچہ زیادہ تر نثری ڈرامے تحریر کیے، لیکن ان کے بعض ڈراموں کے اشعار اور منظوم حصے تمثیل نگاری کا درجہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح جدید اردو نظم میں فیض احمد فیض، ن۔م۔ راشد، اور میراجی نے جو استعارہ و علامت کی زبان اپنائی، اس میں بھی تمثیلی رجحان نمایاں ہے۔ فیض کی نظم “ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے” ایک تمثیلی بیانیہ ہے جس میں کردار اور واقعہ مجاز کی صورت میں پیش کیے گئے ہیں۔ ن۔م۔ راشد کی نظم “اندھا کباڑی” بھی ایک فکری تمثیل ہے جو انسان کی معنوی گمشدگی اور وجودی بحران کو علامتی انداز میں بیان کرتی ہے۔

بیسویں صدی کے آخری عشروں میں اردو نظم میں جن شعرا نے تمثیل کو باقاعدہ فنی اظہار کا ذریعہ بنایا، ان میں افتخار عارف، جمال احسانی، امجد اسلام امجد، اور پروین شاکر جیسے نام آتے ہیں۔ افتخار عارف کی نظموں میں مذہب، تاریخ، تہذیب اور انسانی کرب کے موضوعات تمثیلی پیرائے میں پیش کیے گئے ہیں۔ ان کی نظم “بارہواں کھلاڑی” ایک علامتی تمثیل ہے جو سیاسی اور سماجی حالات پر ایک گہرا طنز ہے۔ امجد اسلام امجد جو بنیادی طور پر ڈراما نگار ہیں، ان کی شاعری میں بھی تمثیلی عناصر بھرپور انداز میں نظر آتے ہیں۔ ان کی نظم “محاصرہ” ایک مکمل تمثیل ہے، جس میں شہر، سپاہی، حاکم، رعیت سب علامتی انداز میں ظاہر ہوتے ہیں۔

جدید اردو نظم میں عورت، جنس، طاقت، مزاحمت، وجود، شناخت، سب تمثیلی رنگ میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ نئی نسل کے شعرا جیسے عباس تابش، علی محمد فرشی، اور راحت اندوری کی نظموں میں بھی تمثیل کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ عورت کو کبھی دیوی، کبھی قربانی کی مورت، کبھی مزاحمت کی علامت بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ سماج کو کبھی جنگل، کبھی قید خانہ، اور کبھی تھیٹر دکھایا گیا ہے۔ یہ سب تمثیل ہی کے رنگ ہیں جو نظم میں جذب ہو گئے ہیں۔

اردو منظوم تمثیل کے فنی تقاضے بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے گئے۔ ابتدائی تمثیلوں میں واقعہ نگاری اور اخلاقی پیغام زیادہ نمایاں ہوتا تھا، جب کہ جدید منظوم تمثیل میں علامت، استعارہ، رمزیت، اور فکری پیچیدگیوں کا رجحان غالب ہے۔ روایتی تمثیل میں کردار مخصوص اور پہچانے جا سکتے تھے، مگر جدید تمثیل میں کردار بے نام، علامتی اور وجودی نوعیت کے ہو گئے ہیں۔ مکالمے کی جگہ داخلی خودکلامی نے لے لی ہے، اور واقعے کی جگہ ایک ذہنی فضا نے۔ یہی تبدیلی منظوم تمثیل کو جدید نظم کے قریب لے آئی ہے۔

یوں اردو منظوم تمثیل اپنی ابتدائی مذہبی و اصلاحی صورت سے ترقی کرتے ہوئے ایک فکری، علامتی اور تہذیبی اظہاریہ بن چکی ہے۔ اس نے اردو نظم کو ایک وسیع تر بیانیہ عطا کیا، جس میں صرف جذبات نہیں، بلکہ نظریات، تاریخ، اور سماج کی پرتیں کھولی جا سکتی ہیں۔ یہ تمثیل اردو ادب کے اس پہلو کی نمائندہ ہے جہاں فن، فکر، اور تہذیب ایک ساتھ ہم آہنگ ہو کر اپنا رنگ جماتے ہیں۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں