کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو کی فقہی کتب کا تحقیقی جائزہ

اردو کی فقہی کتب کا تحقیقی جائزہ دراصل اسلامی علوم کی اس روایت کا فہم ہے جس نے اردو زبان کو دینی تعبیر، شرعی رہنمائی، اور فقہی تفہیم کا ایک اہم ذریعہ بنا دیا۔ فقہ اسلامی شریعت کا عملی پہلو ہے، جو قرآن، سنت، اجماع اور قیاس کی بنیاد پر مسلمانوں کی زندگی کے ہر پہلو کو ضابطے میں لاتا ہے، اور اردو زبان میں اس کا منتقل ہونا نہ صرف لسانی ضرورت تھا بلکہ دینی شعور کی عام فہمی کے لیے ایک تمدنی فریضہ بھی تھا۔ اردو میں فقہی کتب کی تدوین کا آغاز اس وقت ہوا جب برصغیر میں فارسی کی جگہ اردو کو عوامی اور علمی رابطے کی زبان کی حیثیت حاصل ہونے لگی۔ ابتدا میں فقہی موضوعات پر تحریریں فارسی یا عربی میں تھیں، مگر ان کے تراجم، شروحات اور توضیحات اردو میں پیش کی جانے لگیں۔ ان تراجم و تالیفات میں ایک طرف تو سادگی اور عام فہم انداز رکھا گیا، اور دوسری طرف اسلامی فقہ کے دقیق اور پیچیدہ مسائل کو اس طرح بیان کیا گیا کہ اردو خواں عوام بھی شرعی احکام اور دینی معاملات کو سمجھ سکیں۔

فقہی ادب کا سب سے پہلا اور نمایاں اردو ذخیرہ دیوبند، بریلی، لکھنؤ، اور دیگر مدارس کی علمی تحریکوں سے وابستہ ہے۔ ان اداروں سے تعلق رکھنے والے علما نے اسلامی فقہ کو اردو کے قالب میں ڈھال کر اسے نہ صرف عام مسلمانوں کی ہدایت کے لیے مہیا کیا بلکہ اردو زبان کو بھی دینی استدلال، اصطلاحات اور منطقی بیانیے سے آشنا کیا۔ اس ضمن میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتاب “بہشتی زیور” ایک مثالی فقہی دستاویز ہے، جو اردو زبان میں فقہ، اخلاق، عقائد، اور معاشرتی احکام کا ایسا جامع مرقع ہے جو ہر طبقے کے لیے مفید ہے۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی اس کا سادہ، براہِ راست، اور وضاحتی اسلوب ہے جس نے اردو داں طبقے میں اسے ہر گھر کی کتاب بنا دیا۔ اس کے علاوہ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کی کتاب “فتاویٰ رضویہ” بھی فقہِ حنفی پر اردو میں ایک بے مثل علمی و تحقیقی ذخیرہ ہے جس میں ہزاروں فتاویٰ نہایت تفصیل، تحقیق، اور دقیق فقہی مباحث کے ساتھ موجود ہیں۔

تحقیقی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اردو فقہی کتب میں عام طور پر دو اسالیب پائے جاتے ہیں: ایک وہ جو عام فہم انداز میں عوام الناس کے لیے لکھا گیا ہے اور دوسرا وہ جو تخصصی اور فنی اسلوب میں علما اور طلبہ کے لیے مرتب کیا گیا۔ “فقہ اسلامی اور اس کا تعارف”، “اسلامی فقہ کی تاریخ”، یا “شرح وقایہ” کی اردو تفاسیر اس بات کا ثبوت ہیں کہ اردو فقہ نگاری صرف تقلیدی روایت تک محدود نہیں بلکہ اس میں تجزیاتی اور توضیحی رجحانات بھی موجود ہیں۔ مختلف مکاتبِ فکر کے علما نے نہ صرف اپنی فقہی ترجیحات کو اردو زبان میں وضاحت سے پیش کیا بلکہ ایک دوسرے کے موقف کا علمی تنقیدی جائزہ بھی لیا۔ مثال کے طور پر دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، اور اہل تشیع علما نے نماز، طہارت، نکاح، طلاق، وراثت، حدود، زکوٰۃ، اور دیگر فقہی معاملات پر الگ الگ کتابیں اردو میں تحریر کیں، جن میں نہ صرف دلائل کی روشنی میں احکام بیان کیے گئے بلکہ مختلف فقہی مکاتب کے مابین اختلافات کی علمی توضیح بھی کی گئی۔

اردو فقہی ادب کا ایک پہلو فتاویٰ نویسی ہے، جو برصغیر کے علما کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ دارالعلوم دیوبند، جامعہ نظامیہ لاہور، جامعہ اشرفیہ، جامعہ نعیمیہ، جامعہ بنوریہ کراچی، اور بریلوی مکتبِ فکر کے مدارس نے لاکھوں کی تعداد میں فتاویٰ اردو زبان میں جاری کیے ہیں، جو کہ اسلامی فقہ کا ایک متحرک، زندہ اور عصری ردعمل پر مبنی سرمایہ ہے۔ ان فتاویٰ کی ترتیب، ان کا موضوعاتی اشاریہ، اور ان میں درج سوالات و جوابات فقہی نفاست، دینی بصیرت، اور ادبی شائستگی کی بھرپور مثال ہیں۔ ان میں جہاں معاشرتی مسائل کا حل پیش کیا جاتا ہے، وہیں جدید دور کے چیلنجز جیسے انشورنس، بینکاری، ٹیوب بے بی، ڈی این اے، جمہوریت، ووٹ کا شرعی حکم وغیرہ جیسے موضوعات پر بھی دلائل کے ساتھ آرا پیش کی جاتی ہیں۔

اردو فقہی ادب کے تنقیدی جائزے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ کچھ کتب اپنے محدود علمی افق اور مکاتبِ فکر کی شدت کے باعث اعتدال سے دور ہو جاتی ہیں۔ کہیں کہیں فقہ کا لسانی اظہار اتنا پیچیدہ ہو جاتا ہے کہ عام قاری کے لیے مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ اسی طرح بعض فقہی کتب میں صرف ایک مکتبِ فکر کی آرا کو حرفِ آخر کے طور پر پیش کیا گیا، جبکہ دوسرے نقطہ ہائے نظر کو رد کر دیا گیا ہے، جس سے علمی تنگ نظری اور تعصب کی بو آتی ہے۔ تاہم مجموعی طور پر اردو کی فقہی کتب نے اسلامی شریعت کو جس طرح عوام تک پہنچایا، وہ ایک بڑا دینی، لسانی، اور تمدنی کارنامہ ہے۔

اردو زبان کی فقہی کتب میں عورتوں کے مسائل پر بھی خاصی توجہ دی گئی ہے۔ “بہشتی زیور”، “اسلامی عورت”، “حقوقِ نسواں اسلام کی روشنی میں”، اور “پردے کے احکام” جیسی کتابیں خاص طور پر خواتین کے دینی مسائل کو واضح انداز میں بیان کرتی ہیں۔ اسی طرح بچوں، نوجوانوں، اساتذہ، تاجروں، اور مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے لیے الگ الگ فقہی رہنما کتابچے بھی اردو میں ترتیب دیے گئے ہیں، جنہوں نے دین کو محض عبادات تک محدود رکھنے کے بجائے ایک مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر عام لوگوں تک متعارف کرایا ہے۔

عصر حاضر میں اردو میں جدید فقہی موضوعات پر بھی کثرت سے کتب تحریر ہو رہی ہیں۔ اسلامی فقہ اور سائنس، فقہ اور ماحولیاتی مسائل، فقہ اور جدید معیشت، فقہ اور جمہوری نظام حکومت، اقلیتوں کے حقوق، میڈیا اور حجاب، جدید ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا اور شرعی رہنمائی جیسے عنوانات پر اردو میں سنجیدہ کام ہو رہا ہے۔ یہ فقہی جہت دراصل اردو زبان کو اس کے فکری دائرے میں وسعت عطا کر رہی ہے اور اس میں اسلامی فکر کے ہمہ گیر پہلوؤں کو سمو رہی ہے۔

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو کی فقہی کتب کا تحقیقی جائزہ نہ صرف اسلامی شریعت کی عوامی تفہیم کی کوششوں کو سامنے لاتا ہے، بلکہ اردو زبان کے علمی و فکری دائرے کی وسعت اور قبولیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اردو نے فقہ کو محض اجتہادی منطق سے ہٹ کر عوامی شعور، دینی احساس، اور تمدنی رہنمائی کا ذریعہ بنایا ہے۔ اردو فقہ نگاری نے نہ صرف دین کو عام کیا بلکہ زبان کو علمی وقار عطا کیا۔ اس کے باوجود ضرورت اس امر کی ہے کہ جدید تحقیقی تقاضوں کے تحت فقہی ادب کی اشاریہ سازی، تدوین، ترجمہ، تنقید، اور تدوینی تاریخ مرتب کی جائے تاکہ اردو میں فقہ کا یہ قیمتی سرمایہ آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ ہو اور مزید نکھر سکے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں