اولیائے سندھ کا اردو زبان کی ترویج و ترقی میں کردار ایک نہایت اہم، مگر اکثر نظر انداز کیا جانے والا باب ہے، جو برصغیر کی لسانی و روحانی تاریخ میں اپنی انفرادیت اور وسعت کے باعث قابلِ تحقیق و توجہ ہے۔ سندھ ہمیشہ سے صوفیا کی سرزمین رہی ہے، جہاں روحانی، فکری، علمی اور ثقافتی ارتقا نے عوامی زبانوں کو فروغ دیا اور مختلف لسانی دھاروں کو یکجا کر کے ایک جامع تہذیبی وحدت کی بنیاد رکھی۔ عہدِ کلہوڑا (1701ء تا 1783ء) میں سندھ کا علاقہ علمی و صوفیانہ تحریکوں کا مرکز تھا، جہاں مختلف زبانوں جیسے سندھی، فارسی، پنجابی، ہندی اور مقامی لہجوں کے ساتھ ساتھ اردو نے بھی اپنی جگہ بنانی شروع کی۔ اس دور میں اگرچہ اردو زبان کا باقاعدہ تعلیمی یا دفتری رواج سندھ میں نہیں تھا، لیکن اولیائے کرام، خاص طور پر کلہوڑا عہد کے متصوف شعرا، علما، اور مدرسین نے اردو کو عوامی مذہبی اور روحانی اظہار کا ذریعہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں شاہ عبداللطیف بھٹائی، مخدوم نوح، اور سچل سرمست جیسے عظیم روحانی شخصیات کے نام قابلِ ذکر ہیں، جنہوں نے اگرچہ سندھی یا فارسی کو تخلیقی اظہار کا وسیلہ بنایا، مگر ان کے حلقۂ ارادت میں اردو کی جڑیں مضبوط ہونے لگیں، اور رفتہ رفتہ سندھ میں اردو نہ صرف تبلیغی زبان کے طور پر استعمال ہوئی بلکہ عوامی مذہبی مجالس، میلوں، ذکر و اذکار، اور مناقب خوانی میں بھی اس نے اپنی جگہ بنائی۔
سندھ میں اردو زبان کے فروغ کی دوسری بڑی لہر برطانوی دور میں اس وقت آئی جب سندھ کو بمبئی پریذیڈنسی سے الگ کر کے 1936ء میں ایک علیحدہ صوبہ بنایا گیا، اور مختلف ریاستوں سے بالخصوص لکھنؤ، دہلی، یوپی، بہار، اور دکن کے مہاجر علما، صوفیا، اور اردو دان طبقے نے سندھ کی سرزمین پر سکونت اختیار کی۔ ان میں کئی مذہبی شخصیات، پیرانِ طریقت، مدارس کے سربراہان اور خانقاہی مراکز کے متولی شامل تھے، جنہوں نے اپنے مریدین کو تبلیغ و ارشاد کے لیے اردو کو ذریعہ اظہار بنایا۔ اس سے قبل بھی سلاسلِ تصوف جیسے نقشبندیہ، قادریہ، چشتیہ، اور سہروردیہ سے وابستہ بزرگوں نے سندھ کے مختلف علاقوں میں اردو کے ذریعے وعظ و نصیحت کا آغاز کر دیا تھا، کیوں کہ اردو کی مقبولیت شمالی ہندوستان میں مذہبی لٹریچر، وعظ، مناقب، ملفوظات اور صوفیانہ کلام کے ذریعے ہو چکی تھی، اور یہ زبان ایک مشترکہ تہذیبی رابطے کے طور پر تسلیم کی جانے لگی تھی۔
قیام پاکستان کے بعد اولیائے سندھ اور ان کے روحانی سلسلوں نے اردو زبان کو نہ صرف اپنے حلقۂ ارادت میں رائج کیا بلکہ اپنے مدارس، خانقاہوں، درگاہوں، اور تبلیغی نظام کے تحت اردو کو درس و تدریس، خطابت، اور تصنیف و تالیف کی زبان بنایا۔ برصغیر سے ہجرت کر کے آنے والے اردو داں صوفی بزرگوں نے کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، اور اندرون سندھ کے دیگر شہروں میں مدارس اور خانقاہیں قائم کیں، جن کے ذریعے اردو کو مذہب، علم اور روحانیت کے ساتھ جوڑا گیا۔ مولانا شاہ احمد نورانی، پیر علی شاہ، مفتی محمود، اور دیگر بزرگانِ دین نے مذہبی جلسوں، محافلِ میلاد، وعظ و نصیحت، اور خطبوں کے ذریعے اردو کو سندھ کی عوامی فضا میں رچا بسا دیا۔ ان بزرگوں کی تقریروں، خطبات، اور ملفوظات نے اردو کو محض ایک دفتری یا تعلیمی زبان سے نکال کر عقیدے، جذبے اور روحانیت کی زبان بنا دیا۔ ان کے مریدین، مدارس کے طلبا، اور خانقاہوں کے وابستگان نے اردو میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کیا، اور آج بھی سندھ کی درگاہوں، مدرسوں اور صوفی حلقوں میں اردو کی زبان میں وعظ، اشعار، اور روحانی ہدایات عام طور پر سننے کو ملتی ہیں۔
اردو زبان کی عوامی سطح پر اشاعت میں سندھ کے میلوں، عرسوں، اور روحانی اجتماعات نے بھی نمایاں کردار ادا کیا، جہاں مختلف زبانوں کے افراد جمع ہوتے تھے اور اردو ان کے درمیان رابطے کی زبان بنتی گئی۔ صوفیا نے اردو میں جو ملفوظات اور مراسلے لکھے، ان کا حلقہ اثر سندھ سے نکل کر پورے برصغیر تک پھیل گیا۔ اردو کے ذریعے عقیدے، اخلاق، تزکیۂ نفس، اور عشقِ الٰہی کی جو تعلیم دی گئی، اس نے سندھ کے عوام کو نہ صرف اردو سے مانوس کیا بلکہ اس زبان کو دینی اور روحانی تقدس بھی بخشا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی سندھ میں اردو زبان کو محض ایک خارجی زبان نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے ایک باطنی اور روحانی ابلاغ کا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے، جس کی جڑیں صوفیا کی تعلیمات میں پیوست ہیں۔
یوں عہد کلہوڑا سے لے کر عہدِ پاکستان تک، سندھ کے اولیا اور صوفیا نے اردو زبان کی ترویج و ترقی میں جو کردار ادا کیا، وہ صرف لسانی خدمت نہیں بلکہ ایک تہذیبی اور روحانی کارنامہ بھی ہے، جس نے اردو کو سندھ کے فکری، علمی، دینی اور ثقافتی مزاج کا حصہ بنا دیا۔ اس زبان کے ذریعے ایک ایسی ہمہ گیر اور بین المسالک وحدت قائم ہوئی جو آج بھی سندھ کی شناخت کا اہم جزو ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اردو کی ترقی میں اولیائے سندھ کی خدمات نہ صرف لائقِ اعتراف ہیں بلکہ ان کے اثرات آج بھی زندہ، متحرک اور موثر ہیں۔