کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو نعت کے جدید رجحانات

نعت گوئی اردو ادب کی وہ مقدس اور محبوب صنف ہے جس میں شاعر اپنی تمام تر فکری، تخلیقی اور جذباتی توانائیاں محبوبِ خدا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی مدح و ثنا میں صرف کرتا ہے۔ اردو نعت کا آغاز اردو زبان کے ارتقائی مراحل کے ساتھ ساتھ ہوا اور اس صنف نے ابتدائی ادوار میں سادہ اسلوب، سچے جذبات اور خلوص سے بھرپور مداحی کلام پر اکتفا کیا۔ تاہم بیسویں صدی کے بعد اردو نعت میں کئی نئے رجحانات نے جنم لیا، جنھوں نے اس صنف کو نہ صرف موضوعاتی وسعت عطا کی بلکہ اسے عصری شعور، فکری جہات اور ادبی معیار سے ہم آہنگ بھی کیا۔ جدید اردو نعت گوئی میں روایتی جذبۂ عقیدت کے ساتھ ساتھ عصری مسائل، تہذیبی کشمکش، جمالیاتی تقاضے اور بیانیے کی ندرت کو بھی اہم مقام حاصل ہوا ہے۔

اردو نعت میں جدید رجحانات کی شناخت کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس صنف کے تاریخی تسلسل کو ذہن میں رکھیں۔ ابتدائی نعت گو شعرا میں ولیؔ، سراجؔ اور شاہ نصیرؔ جیسے شعرا شامل تھے جنھوں نے عربی اور فارسی نعتیہ روایت سے اثر قبول کرتے ہوئے اردو میں حمد و نعت کی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں میرؔ، سودا، غالبؔ اور حالیؔ جیسے بڑے شعرا نے نعتیہ ادب کو تقویت بخشی۔ حالی کی مسدس ‘مد و جزر اسلام’ اردو نعت کی فکری اساس میں انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس نظم میں حالی نے نہ صرف سیرت النبیؐ کو موضوع بنایا بلکہ مسلمانوں کے زوال، اصلاحِ نفس، تعلیم اور اخلاقی تشکیل کو بھی نعتیہ اظہار کے ساتھ جوڑا۔

جدید اردو نعت میں جو نمایاں رجحانات ابھرے ہیں، ان میں سب سے اہم رجحان فکری نعت کا ہے۔ یہ نعت ایسی ہوتی ہے جس میں عقیدت کے ساتھ ساتھ فکری شعور بھی شامل ہو۔ اس میں شاعر صرف حضورؐ کی سیرت کے پہلوؤں کا بیان نہیں کرتا بلکہ ان کے پیغام کی روشنی میں موجودہ زمانے کے مسائل پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ جدید نعت نگار حضور اکرم ﷺ کو ایک جامع انسانی نمونہ، مصلحِ اعظم اور عالمی رہنما کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یہ رویہ صرف مذہبی عشق کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقلی اور فکری سطح پر بھی استدلال پیدا کرتا ہے۔

دوسرا اہم رجحان سادہ بیانی اور غیر مروجہ شعری ہئیتوں کا استعمال ہے۔ پرانی نعتوں میں اکثر فارسی ترکیبیں، غیر مانوس الفاظ اور جذباتی مبالغے عام تھے۔ جدید نعت گو شعرا نے اس سے انحراف کرتے ہوئے روزمرہ کی زبان، سہل اسلوب اور صاف گوئی کو ترجیح دی۔ ن۔م۔ راشد، مجید امجد، احمد ندیم قاسمی، اور پروین شاکر جیسے شعرا نے نعت میں سادگی، داخلیت اور حقیقت پسندی کو فروغ دیا۔ خاص طور پر نظم کی صورت میں لکھی گئی نعتیں اس رجحان کا مظہر ہیں، جن میں شاعر اپنی داخلی کیفیات، سماجی مشاہدات اور روحانی تجربات کو نعتیہ پیرائے میں بیان کرتا ہے۔

تیسرا رجحان نعت کے ذریعے تہذیبی اور تمدنی زوال کے احساس کا اظہار ہے۔ جدید اردو نعت میں مسلم دنیا کے زوال، علم و دانش کی پسماندگی، اخلاقی بحران، اور مغربی تہذیب کے دباؤ کے خلاف ایک ردعمل کی صورت نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا، سلیم احمد، خورشید الاسلام، اور انتظار حسین جیسے نقادوں اور شعرا نے نعت گوئی کو محض مذہبی جذبات کی تسکین کا ذریعہ نہیں سمجھا بلکہ اسے امتِ مسلمہ کی فکری تجدید کا ایک مؤثر ذریعہ قرار دیا۔ اس رجحان میں شاعر نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو عصر حاضر کے تناظر میں پیش کرتا ہے تاکہ ایک فعال اور مؤثر تہذیبی ردعمل پیدا کیا جا سکے۔

چوتھا نمایاں رجحان خواتین نعت گو شعرا کی شمولیت اور ان کے مخصوص لب و لہجے کا فروغ ہے۔ پہلے نعت گوئی کو مردانہ میدان تصور کیا جاتا تھا لیکن موجودہ دور میں پروین شاکر، رخسانہ صبا، شاہدہ حسن، اور صبیحہ صبا جیسی خواتین شعرا نے نہایت خلوص، احساس اور نسوانی لطافت کے ساتھ نعت گوئی میں گراں قدر اضافہ کیا ہے۔ ان کی نعتیں محض رسمی مدح نہیں بلکہ عشقِ رسولؐ کے لطیف تجربے، روحانی جستجو اور انسانی ہمدردی کی کیفیت سے بھرپور ہیں۔ خواتین نعت گو شعرا نے سیرتِ طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو نسوانی نقطۂ نظر سے بیان کر کے نعت کو ایک نئے زاویے سے روشناس کرایا ہے۔

پانچواں رجحان جدید ٹیکنالوجی اور میڈیا کے ذریعے نعت کے فروغ کا ہے۔ نعت گوئی اب صرف دیوانوں یا مشاعروں تک محدود نہیں رہی بلکہ یوٹیوب، سوشل میڈیا، اور نعتیہ ویب سائٹس کے ذریعے لاکھوں افراد تک رسائی حاصل کر رہی ہے۔ اس تکنیکی پھیلاؤ نے نعت کے اسلوب اور ادائیگی پر بھی اثر ڈالا ہے۔ جدید نعت خواں خوش الحانی کے ساتھ ساتھ فصیح و بلیغ اشعار، جدید آہنگ اور متاثر کن ویژولز کے ذریعے نعت کو ایک ہمہ گیر فن بنا رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ جدید نعت میں بین المذاہب ہم آہنگی، انسان دوستی، امن اور عالمی اخلاقیات کے موضوعات بھی شامل ہو گئے ہیں۔ ماضی کی نعت گوئی میں جہاں ایک مخصوص دائرہ کار میں مدحِ رسولؐ کی جاتی تھی، آج کی نعت گوئی وسیع تر انسانی تناظر میں حضورؐ کی شخصیت کو دیکھتی ہے۔ شاعر اب صرف عاشق نہیں بلکہ ایک باشعور شہری، ایک فکری مفسر اور ایک عالمی امن کا داعی بن کر نعت کہتا ہے۔ یہ رجحان خاص طور پر اُس وقت اہم ہو جاتا ہے جب دنیا مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت اور تہذیبی تصادم کا شکار ہو۔

مزید یہ کہ نعت میں علامتی اظہار اور مجرد اسلوب کا رجحان بھی بڑھا ہے۔ جدید شاعر اکثر اپنے جذبات کو علامتوں، استعاروں، اور اشاروں کی زبان میں بیان کرتا ہے۔ وہ نبی کریم ﷺ کی سیرت کے واقعات کو محض تاریخی بیانات کے طور پر پیش کرنے کے بجائے ان میں سے ایسی علامات کشید کرتا ہے جو آج کے قاری کو فکری سطح پر متحرک کر سکیں۔ مثال کے طور پر ہجرت، صلح حدیبیہ، میثاقِ مدینہ جیسے واقعات کو شاعر سیاسی و سماجی پیغام کی صورت میں پیش کرتا ہے۔

عصری نعت گوئی میں سیرت کے مختلف گوشوں پر بھی تحقیقاتی شعور بڑھا ہے۔ مثلاً نعت گو اب صرف حسن و جمال، اخلاق و عادات یا معجزات پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ حضورؐ کی سیاسی بصیرت، قانون سازی، تعلیمِ نسواں، معاشی مساوات، اقلیتوں کے حقوق اور بین الاقوامی سفارت کاری جیسے پہلوؤں کو بھی شعری پیرائے میں بیان کرتا ہے۔ اس رجحان نے نعت کو ایک کثیرالجہتی فن بنا دیا ہے جو عشق اور عقل، وجدان اور دلیل، روایت اور جدت کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔

آخر میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اردو نعت میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا جذبہ بھی شدت سے ابھرا ہے۔ آج کے نعت گو صرف ایک مخصوص مکتب فکر کی مدح سرائی نہیں کرتے بلکہ نبی اکرم ﷺ کو پوری انسانیت کا نبی سمجھ کر ان کے پیغام کو عالمی تناظر میں پیش کرتے ہیں۔ یہ رجحان نعت کو اس کے اصل مقصد، یعنی سیرتِ طیبہ کے عالمگیر پیغامِ رحمت سے ہم آہنگ کرتا ہے۔

ان تمام رجحانات کے باوجود، اردو نعت گوئی کا اصل جوہر وہی ہے: حضورؐ کی محبت، عظمت اور اتباع۔ جدید نعت نگاروں نے اگرچہ اس اظہار میں نئی جہات، اسالیب اور افق متعارف کرائے ہیں، لیکن ان کے جذبات کی بنیاد وہی سچا عشق ہے جو ہر دور میں نعت کو زندہ رکھتا آیا ہے۔ یہی عشق، یہی ادب، اور یہی فکری وسعت اردو نعت کو ایک مسلسل ارتقائی سفر میں رکھتی ہے جو نہ صرف زبان و بیان کا حسن ہے بلکہ روح کی بالیدگی، دل کی طہارت اور سماج کی تعمیر کا وسیلہ بھی۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں