اردو نعت گوئی کا ہئیتی مطالعہ دراصل ایک ایسے فنی و شعری ارتقا کی نشاندہی کرتا ہے جس میں عشقِ رسولؐ کے اظہار کے لیے شعری سانچوں، اوزان، قوافی اور بحور کو اس طور برتا گیا کہ عقیدت اور فنی جمالیات کے امتزاج سے اردو ادب میں ایک منفرد صنف نے جنم لیا۔ نعت اردو شاعری کی وہ صنف ہے جس میں صرف جذباتی والہانہ پن ہی نہیں بلکہ گہری فنی مہارت، زبان کی نزاکت، عروض کی پابندی، اور شعری اظہار کی ندرت بھی شامل ہوتی ہے۔ اردو نعت گوئی کی ابتدا کلاسیکی دور میں ہوئی جب صوفیا، بزرگ شعرا اور فارسی طرز کے پیروکاروں نے حمد و نعت کو اپنی شاعری کا بنیادی جزو بنایا۔ سب سے نمایاں نام امیر خسرو، ولی دکنی، اور بعد ازاں میر، سودا، اور غالب جیسے شعرا کے سامنے آتے ہیں جنہوں نے مختلف انداز سے نعت گوئی کی۔ مگر نعت کے لیے جس مخصوص فنی اور ہئیتی ساخت کی تشکیل جدید دور میں ہوئی، وہ خصوصاً حالی، اقبال، محسن کاکوروی اور بعد ازاں جمیل مظہری، مظفر وارثی اور احمد ندیم قاسمی جیسے شعرا کے ذریعے ابھر کر سامنے آئی۔
نعت گوئی کا ہئیتی مطالعہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم دیکھیں کہ نعت کس سانچے، کس عروضی نظام، اور کس شعری اسلوب میں ڈھل کر ایک مکمل اور تاثیر خیز تخلیق بنتی ہے۔ نعت کا سب سے مقبول ہئیتی پیرایہ غزل کا ہے، مگر نعت کے لیے قصیدہ، مثنوی، رباعی، مسدس، مخمس، ترکیب بند، نظمِ آزاد اور نثری نظم بھی استعمال ہوئے ہیں۔ نعتیہ غزل کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہر شعر مکمل ہوتا ہے اور نبی کریمؐ سے عشق و عقیدت کے مختلف پہلوؤں کو ایک خاص ترتیب کے بغیر بیان کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ آزادی نعت گو شاعر پر ایک اضافی ذمہ داری بھی ڈالتی ہے کہ وہ فنی طور پر بھی شعر کو کامیاب بنائے اور عقیدت کے جذبے کو بھی لطیف رکھے۔
اردو نعتیہ قصیدے میں صنائع و بدائع کی بھرمار اور زبان کا فخریہ آہنگ پایا جاتا ہے۔ اس صنف میں شعرا نبی کریمؐ کی شان، معجزات، سیرت، اور مدح کے مختلف پہلوؤں کو بہت فخریہ اور بلند آہنگ انداز میں بیان کرتے ہیں۔ محسن کاکوروی کا مشہور قصیدہ “مدحتِ خیرُالوریٰ” اردو نعتیہ قصیدے کی ایک اعلیٰ مثال ہے جو عروضی التزام، صنائع بدائع کے استعمال، ردیف و قافیہ کے حسن اور فکری تسلسل کا بہترین نمونہ ہے۔ نعتیہ مسدس، جو حالی کی “مسدسِ مدو جزرِ اسلام” کی روایت سے جڑا ہے، فکری طور پر سیرتِ نبویؐ کے واقعات کو بیانیہ اسلوب میں نظم کرتا ہے، جہاں چھ مصرعوں پر مشتمل بند قاری کو ایک فکری اور جمالیاتی تسلسل فراہم کرتا ہے۔ اردو نظم میں آزاد نعت بھی ایک اہم تجربہ رہا ہے، جہاں جمیل الدین عالی، احمد ندیم قاسمی، اور خالد احمد جیسے شعرا نے نبی کریمؐ کی ذات کو عصری تناظر میں، مذہبی جذبات کے احترام کے ساتھ، فکری سوالات اور جذباتی ترجمانی کی صورت میں پیش کیا۔
نعتیہ ہئیت میں سب سے اہم چیز “ردیف و قافیہ” کا چناؤ ہوتا ہے، کیوں کہ نعت گو شعرا کی کوشش ہوتی ہے کہ مدحِ رسولؐ کے کلمات میں ایک مخصوص صوتی آہنگ، دل کو چھو لینے والا ترنم اور گہرا اثر پیدا ہو۔ چنانچہ وہ اکثر ایسے قافیے اور ردیف کا انتخاب کرتے ہیں جو نرمی، حلاوت اور موسیقیت کے حامل ہوں، مثلاً “مدینے”، “قرینے”، “پسینے”، “پسینے”، “چراغوں”، “فراغوں” وغیرہ۔ اسی طرح بحور کے اعتبار سے نعتیہ کلام میں “بحرِ رمل”، “بحرِ ہزج”، “بحرِ متقارب” اور “بحرِ کامل” جیسی نرمی اور موسیقیت کی حامل بحور کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ نعت کے تقدس اور نرمی کو برقرار رکھا جا سکے۔
نعتیہ شاعری میں ہئیتی تجربات کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ شاعر صرف فنی تکلفات میں نہیں الجھتا بلکہ وہ عشقِ رسولؐ کی صداقت اور شدت کو بھی محفوظ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض جدید نعتیہ نظمیں اگرچہ تکنیکی اعتبار سے آزاد نظم یا نثری نظم کے زمرے میں آتی ہیں، مگر ان میں ایسی فکری گہرائی اور عقیدت کی شدت ہوتی ہے جو قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی۔ نعت کے ہئیتی پہلو میں “تشبیہات”، “استعارات”، “تلمیحات” اور “مبالغہ” جیسی شعری صنعتیں بھی خاص اہمیت رکھتی ہیں، مگر یہاں مبالغہ کا مطلب غلو نہیں بلکہ عقیدت کے اظہار کی شدت ہے، جسے نبی کریمؐ کی ذات کے تقدس کو مجروح کیے بغیر استعمال کیا جاتا ہے۔
جدید اردو نعت گوئی میں ہئیتی لحاظ سے کئی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں، خاص طور پر نعتیہ نظمیں جو کسی خاص واقعے یا سیرتی پہلو پر مرکوز ہوتی ہیں، ان میں علامتی اسلوب، تمثیلی پیرایہ، اور تجریدی طرزِ بیان اختیار کیا گیا ہے۔ بعض شعرا نے ماحولیاتی یا معاشرتی تناظر میں نعت کو ڈھالا اور بتایا کہ سیرتِ رسولؐ صرف ماضی کی روایت نہیں بلکہ حال کے لیے بھی رہنمائی ہے۔ ایسی نعتیہ نظموں میں شاعر نبی کریمؐ کو ایک اخلاقی و روحانی ماڈل کے طور پر پیش کرتا ہے اور جدید انسان کو ان کی تعلیمات سے جڑنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہاں ہئیتی تجربات میں مصرعوں کی ساخت، وزن کی بے قاعدگی، اور قوافی کی بے ترتیبی بھی ملتی ہے، مگر ان سب کا مقصد نعت کے پیغام کو جدید قاری تک مؤثر انداز میں پہنچانا ہوتا ہے۔
اختتامیہ طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اردو نعت گوئی کا ہئیتی مطالعہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ اردو نعت محض عقیدت کا اظہار نہیں بلکہ شعری فن کا ایک لطیف مظہر ہے۔ یہ وہ صنف ہے جس نے اردو عروض، قوافی، بحور، صوتی موسیقیت اور علامتی اظہار کو مذہبی اور روحانی جذبے کے ساتھ جوڑ کر اردو شاعری کے دامن کو نہایت بابرکت اور جمالیاتی طور پر مالامال کر دیا ہے۔ نعت کا ہر شعر، ہر مصرع، ہر ردیف اور ہر قافیہ صرف ایک فنی ساخت نہیں بلکہ عقیدت کی صورت گری ہے۔ نعت گو شاعر ہر ہئیتی پیرائے میں یہی کوشش کرتا ہے کہ اس کا اظہارِ عقیدت، فنی خوبی کے ساتھ ساتھ، دل کی سچائی اور روح کی پاکیزگی کا بھی مظہر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اردو نعت گوئی آج بھی ادب میں نہ صرف زندہ ہے بلکہ ایک متحرک، تجرباتی اور روح پرور صنف کے طور پر ترقی کر رہی ہے۔