اردو نظم میں عورت کا کردار محض صنفی مظہر کے طور پر نہیں بلکہ ایک مکمل تہذیبی، جذباتی اور فکری استعارے کے طور پر ابھرا ہے۔ عورت کی شبیہ اردو نظم کے مختلف ادوار میں بدلتی رہی ہے—کبھی محبوبہ، کبھی ماں، کبھی مظلوم سماجی کردار، اور کبھی انقلابی وجود۔ ان میں سے ہر ایک تصور نہ صرف شاعری کے اسلوب اور موضوعات پر اثرانداز ہوا ہے، بلکہ عورت کو ایک مربوط انسانی تجربے کے طور پر بھی پیش کیا ہے۔ اردو نظم کا دائرہ جس قدر وسیع ہوتا گیا، اس میں عورت کا تصور بھی اسی قدر ہمہ جہت اور گہرا ہوتا چلا گیا۔
ابتدائی کلاسیکی نظموں میں عورت کا تصور زیادہ تر رومانوی اور جمالیاتی تناظر میں موجود تھا۔ وہ محبوبہ کے روپ میں معشوقہ کی حیثیت سے ناز و انداز، زلف و رخسار اور حسن و جمال کے استعاروں میں سمٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ دور غزل کا دور بھی تھا اور نظم میں بھی عورت کو اسی انداز سے برتا گیا۔ تاہم اس وقت عورت کا وجود ایک خارجی حسن اور رومانوی تجربے تک محدود تھا۔ وہ ایک مکمل فرد کی حیثیت سے نہیں بلکہ شاعرانہ حسن کی علامت بن کر ابھرتی تھی۔
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں جب اردو نظم نے قومی شعور، اصلاحی رجحانات اور معاشرتی مسائل کی جانب توجہ دی، تو عورت کے کردار میں بھی وسعت پیدا ہوئی۔ علامہ اقبال نے اپنی نظموں میں عورت کو قوم کی معمار، ایک نظریاتی ماں، اور تہذیب کی نگہبان کے طور پر پیش کیا۔ ان کی نظم “ماں کا خواب” ہو یا “لوری”، ان میں عورت کا کردار محبت، ایثار، اور قوم پرستی کا استعارہ بن کر سامنے آتا ہے۔ اقبال کی عورت پردے کی پابند ضرور ہے، لیکن وہ ایک فعال سماجی اور اخلاقی وجود بھی رکھتی ہے جو اگلی نسل کی تربیت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
ترقی پسند تحریک نے اردو نظم میں عورت کے کردار کو ایک نئے زاویے سے دیکھا۔ فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی، علی سردار جعفری، اور مجروح سلطان پوری جیسے شعرا نے عورت کو صرف ایک محبوبہ یا ماں کے روپ میں نہیں بلکہ ایک مظلوم، استحصال زدہ، اور بیداری کی متمنی شخصیت کے طور پر پیش کیا۔ فیض کی نظمیں “مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ” یا “نثار میں تری گلیوں کے اے وطن” میں عورت محض ایک شخص نہیں بلکہ ایک استعارہ بن جاتی ہے—محبت، قربانی اور جدوجہد کا۔ ترقی پسند شعرا کے یہاں عورت کی محرومی، اس کی ذات پر ہونے والا جبر، اور اس کی داخلی بغاوت نمایاں ہے۔
اسی دوران اردو نظم میں خواتین شعرا کی شمولیت نے عورت کے کردار کو داخلی گہرائی، نفسیاتی پیچیدگی، اور نسوانی شناخت کے شعور سے آشنا کیا۔ پروین شاکر، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، زہرہ نگاہ، اور بعد میں صبا سبزواری، ہما میر، فائزہ افتخار جیسے شعرا نے عورت کو اس کی داخلی دنیا سے جوڑ کر پیش کیا۔ پروین شاکر کی نظموں میں عورت ایک حساس، خواب دیکھنے والی، اور جذبات سے لبریز ہستی کے طور پر سامنے آتی ہے، جو نہ صرف محبت کرتی ہے بلکہ ٹھکرائے جانے، سماجی جکڑ بندیوں اور اندرونی کشمکش سے دوچار ہوتی ہے۔
فہمیدہ ریاض نے عورت کو ایک انقلابی کردار میں متعارف کرایا۔ ان کی نظموں میں عورت محض متاثرہ نہیں بلکہ ردعمل ظاہر کرنے والی ایک توانا شخصیت ہے۔ ان کی شاعری میں جنسی شناخت، بدن کی آزادی، اور عورت کی سیاسی و سماجی خودمختاری کو نہایت جرات مندی سے بیان کیا گیا۔ ان کی نظم “چادر اور چار دیواری” ایک یادگار مثال ہے، جس میں عورت پر مسلط کردہ روایتی سماجی ڈھانچے پر شدید تنقید کی گئی ہے۔ کشور ناہید کی نظمیں بھی عورت کے خلاف جبر، اس کے وجود کی انکاری فضا، اور اس کے اظہار کی جدوجہد کا بیانیہ پیش کرتی ہیں۔
جدید اردو نظم میں عورت کا کردار اور زیادہ متنوع اور کثیر الجہتی ہو چکا ہے۔ ما بعد جدید نظموں میں عورت صرف ایک نسوانی وجود نہیں بلکہ ایک سماجی مظہر، ایک ثقافتی علامت، اور ایک فکری پیکر کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔ نئی نظم میں عورت کے کردار کو دیہی و شہری تقسیم، طبقاتی شعور، مذہبی جکڑبندیوں، اور خود آگاہی کی روشنی میں پرکھا جا رہا ہے۔ وہ اپنے وجود کو محض مرد کے آئینے میں دیکھنے سے انکار کر چکی ہے۔ اب وہ اپنی شناخت خود متعین کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اردو نظم میں عورت کا تصور وقت کے ساتھ ساتھ متحرک، متبدل اور بامعنی ہوتا گیا ہے۔ اب وہ صرف شعر و ادب کی زینت نہیں بلکہ سماجی، سیاسی اور فکری شعور کی نمائندہ بن چکی ہے۔ وہ اب محض کوئی “ماحول” یا “موضوع” نہیں بلکہ نظم کی روح اور مرکز بن چکی ہے۔ اس تبدیلی کا پس منظر وہ تہذیبی، فکری اور معاشرتی تبدیلیاں ہیں جو عورت کی زندگی میں وقوع پذیر ہوئیں۔
اردو نظم میں عورت کا کردار اب ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنے معاشرے کے رویے، شعور، جبر، محبت، آزادی اور تبدیلی کے تمام پہلوؤں کو دیکھ سکتے ہیں۔ وہ ایک ایسا کردار ہے جو خود بھی شاعری کرتی ہے، اور جس کے ذریعے شاعری کو ایک نئی معنویت، نئی زبان، اور نیا شعور عطا ہوا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اردو نظم کی روح کو سمجھنے کے لیے عورت کے کردار کا فکری و تنقیدی مطالعہ ناگزیر ہے۔