کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو ناول میں تقسیم ہندوستان کے تناظرات، آنگن اور تلاش بہاراں کا تقابل

اردو ناول میں تقسیمِ ہند ایک ایسا موضوع ہے جس نے نہ صرف تخلیقی سطح پر بلکہ فکری و تہذیبی سطح پر بھی گہرے اثرات چھوڑے۔ تقسیم کا واقعہ محض جغرافیائی یا سیاسی سانحہ نہیں تھا بلکہ یہ انسانی رشتوں، احساسات، شناختوں اور اقدار کی ٹوٹ پھوٹ کا لمحہ بھی تھا۔ اردو ناول نگاروں نے اس المیے کو مختلف زاویوں سے دیکھا — کہیں یہ قومی شعور کی شکست کا المیہ بنا، کہیں عورت کے وجود پر ہونے والے ظلم کا استعارہ، اور کہیں انسان کی داخلی شکستگی کا بیان۔ اس ضمن میں خدیجہ مستور کا آنگن اور قرۃ العین حیدر کا تلاشِ بہاراں اردو ادب کے دو اہم ناول ہیں جن میں تقسیم کے اثرات کو نہایت گہرے نفسیاتی اور سماجی تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ دونوں ناول ایک ہی تاریخی پس منظر رکھتے ہیں لیکن ان کا زاویۂ نظر، کرداروں کا نفسیاتی شعور، اور اسلوب ایک دوسرے سے مختلف ہے۔

آنگن ایک خاندانی اور سیاسی پس منظر میں پروان چڑھنے والی کہانی ہے جو تحریکِ آزادی سے لے کر تقسیم تک کے عہد کی سیاسی و معاشرتی کشمکش کو پیش کرتی ہے۔ خدیجہ مستور نے عورت کے نقطۂ نظر سے اُس عہد کے زوال پذیر اقدار اور بکھرتے رشتوں کو بیان کیا ہے۔ ناول کی مرکزی کردار علیا ایک حساس اور مشاہدہ رکھنے والی عورت ہے جو اپنے خاندان کی ٹوٹ پھوٹ کے ذریعے پورے ملک کے انتشار کو محسوس کرتی ہے۔ آنگن دراصل اس سماج کی علامت ہے جس کی بنیادیں سیاسی اختلافات، طبقاتی خلیج اور مذہبی تعصبات نے ہلا کر رکھ دی ہیں۔ خاندان کے مرد سیاسی جماعتوں اور نظریات میں بٹے ہوئے ہیں جبکہ عورتیں اس تقسیم کے نتائج اپنے گھروں میں بھگت رہی ہیں۔ علیا کا کردار اس احساس کا مظہر ہے کہ آزادی کے خواب نے عورت کو کوئی حقیقی نجات نہیں دی، بلکہ اسے ایک نئی تنہائی اور بے سمتی میں دھکیل دیا ہے۔

دوسری طرف قرۃ العین حیدر کا تلاشِ بہاراں ایک وسیع تاریخی و تہذیبی کینوس رکھتا ہے۔ یہ ناول محض تقسیم کے سیاسی یا خاندانی اثرات تک محدود نہیں بلکہ تہذیبی تسلسل کے انقطاع کا نوحہ ہے۔ قرۃ العین حیدر نے تاریخ کے بہاؤ میں انسان کی جڑوں کی تلاش کو مرکزی استعارہ بنایا ہے۔ تلاشِ بہاراں کے کردار محض افراد نہیں بلکہ تہذیبوں کے نمائندے ہیں۔ یہاں تقسیم کو صرف ایک سیاسی واقعہ نہیں بلکہ ایک تہذیبی المیہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جہاں صدیوں کی مشترکہ ثقافت، رواداری اور شناخت پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔

آنگن میں خدیجہ مستور کا اسلوب سادہ، حقیقی اور داخلی ہے۔ وہ کرداروں کے جذباتی اور نفسیاتی پہلوؤں پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ ان کے یہاں تقسیم ایک خاندانی زوال کی علامت بن کر سامنے آتی ہے۔ علیا کا دکھ ذاتی بھی ہے اور اجتماعی بھی، کیونکہ وہ اپنے اردگرد بکھرتی ہوئی دنیا کو خاموشی سے دیکھتی ہے۔ ناول کا بیانیہ زیادہ تر عورت کے اندرونی مکالمے اور تجربے کے گرد گھومتا ہے۔ اس میں تحریکِ آزادی کے مرد کردار وقتی جذبات کے نمائندے ہیں، جبکہ عورت کی خاموشی میں ایک گہرا ادبی احتجاج پوشیدہ ہے۔

اس کے برعکس تلاشِ بہاراں میں قرۃ العین حیدر نے علامتی اور بیانیاتی اسلوب اختیار کیا ہے۔ ان کے یہاں وقت خطی نہیں بلکہ دائرہ وار ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل ایک دوسرے میں گندھے ہوئے ہیں۔ وہ تاریخ کو عورت کے تجربے کے ساتھ جوڑ کر دیکھتی ہیں لیکن ان کا دائرہ محض عورت کی ذات تک محدود نہیں بلکہ تہذیبی وجود تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کے کردار دانشور، مفکر اور تاریخ کے مسافر ہیں جو شناخت، وطن اور وجود کے سوالوں میں الجھے ہیں۔ تقسیم ان کے لیے جسمانی نہیں بلکہ فکری اور روحانی جلاوطنی کا تجربہ ہے۔

دونوں ناولوں میں عورت کی حیثیت مرکزی ہے مگر اس کا کردار مختلف معنویت رکھتا ہے۔ آنگن کی علیا اپنے سماج کی قید میں رہ کر حقیقت کا سامنا کرتی ہے، وہ مایوسی، بے بسی اور گہرے داخلی انتشار کا استعارہ بن جاتی ہے۔ جبکہ تلاشِ بہاراں کی کرداریں — خاص طور پر سیمی اور رشیدہ — نسبتاً آزاد مگر کھوئی ہوئی نسل کی نمائندہ ہیں، جو اپنی شناخت کے بحران سے دوچار ہیں۔ ایک طرف خدیجہ مستور کی عورت ماضی کی تہذیب کے انہدام کو محسوس کرتی ہے، دوسری طرف قرۃ العین حیدر کی عورت مستقبل کی بے معنویت کا ماتم کرتی ہے۔

آنگن میں تقسیم کا درد گھریلو اور شخصی سطح پر محسوس ہوتا ہے، جہاں گھر ٹوٹتا ہے تو ملک کے ٹوٹنے کی علامت بن جاتا ہے۔ تلاشِ بہاراں میں یہ درد اجتماعی اور تہذیبی سطح پر ابھرتا ہے، جہاں پوری قوم اپنی فکری جڑوں سے محروم ہو جاتی ہے۔ مستور کا بیانیہ داخلی اور محدود دائرے میں ہے جبکہ حیدر کا بیانیہ کائناتی اور فکری وسعت کا حامل ہے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ آنگن تقسیم کے سماجی اور نفسیاتی اثرات کی تصویر ہے اور تلاشِ بہاراں تقسیم کے تہذیبی اور تاریخی زوال کا نوحہ۔ ایک میں عورت کی خاموش آنکھوں سے تاریخ کی المیہ تصویر دکھائی گئی ہے، اور دوسرے میں تہذیب کی شکستہ روح سے انسان کی کھوئی ہوئی بہار کا پتہ چلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ دونوں ناول مل کر اردو ادب میں تقسیم کے المیے کو دو مختلف زاویوں سے پیش کرتے ہیں — ایک داخلی اور نسوانی، دوسرا تاریخی اور تہذیبی۔ ان دونوں کے امتزاج سے اردو ناول میں تقسیم کی پوری فکری اور انسانی تصویر مکمل ہو جاتی ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں