اردو میں نثری اسالیب کے تنقیدی مطالعے کی روایت ایک وسیع اور متنوع ادبی سفر کی عکاسی کرتی ہے، جس میں مختلف ادوار میں نثر کے اظہار کے منفرد اسالیب پر غور کیا گیا ہے۔ اردو نثر کا آغاز زیادہ تر مذہبی اور علمی متون سے ہوا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بیانیہ، تمثیلی، داستانوی، خودنوشت، انشائیہ، خاکہ، اور دیگر اسالیب شامل ہوتے گئے۔ اس تناظر میں، تنقیدی مطالعات کا ایک مستقل سلسلہ چل نکلا، جس نے اردو نثر میں موجود مختلف رجحانات اور اسالیب کو جانچنے اور پرکھنے کی روایت کو مضبوط کیا۔ کلاسیکی نثر میں میر امن، سر سید احمد خان، اور شبلی نعمانی جیسے مصنفین کے اسالیب پر بحث کی گئی، جنہوں نے نثر کو سادہ، خطیبانہ، اور علمی رنگ دیا۔ جدید اردو نثر میں ترقی پسند تحریک اور اس کے زیرِ اثر پیدا ہونے والے اسالیب کو خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جہاں کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، اور عصمت چغتائی جیسے ادیبوں نے حقیقت نگاری کو نثری اسلوب میں شامل کیا اور اپنے مخصوص بیانیے سے نثر کو ایک نیا رنگ دیا۔ بعد ازاں، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے رجحانات نے اردو نثر میں علامت نگاری، تجریدیت، اور فکری پیچیدگیوں کو جگہ دی، جس کے نتیجے میں نثری تنقید میں بھی ان عناصر پر خصوصی توجہ دی گئی۔ وزیر آغا، شمس الرحمن فاروقی، اور گوپی چند نارنگ جیسے ناقدین نے نثری اسالیب کو سائنسی اور نظریاتی بنیادوں پر پرکھنے کی کوشش کی، جس سے نثری تنقید میں ایک منظم اور فلسفیانہ پہلو ابھرا۔ اردو نثر کی اسالیبی تنقید میں اس بات پر بھی بحث کی گئی کہ نثر محض بیانیہ کا نام نہیں بلکہ اس میں داخلی ریتم، زبان کا برتاؤ، اور ساختیاتی اصولوں کی کارفرمائی بھی اہم ہوتی ہے۔ عصرِ حاضر میں اردو نثر میں جو نئے تجربات ہو رہے ہیں، ان کا تنقیدی مطالعہ نئی جہات کو اجاگر کر رہا ہے، جہاں نثری بیانیہ محض معلومات کی ترسیل تک محدود نہیں بلکہ اس میں اسلوب کی ندرت، زبان کی تازگی، اور اظہار کی شدت کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ، اردو میں نثری اسالیب کے تنقیدی مطالعے کی روایت ایک مسلسل ارتقائی عمل کا حصہ ہے، جس نے ہر دور میں نثر کے اظہار اور اس کی فنی نزاکتوں کو پرکھنے کی نئی راہیں ہموار کی ہیں۔