اردو میں منٹوشناسی کی روایت نے ادب میں ایک اہم مقام حاصل کیا ہے جس کا آغاز مختلف شخصیات کے کردار اور سیرت کا گہرائی سے تجزیہ کرنے کی کوششوں سے ہوا۔ منٹوشناسی کا مقصد صرف کسی شخص کی زندگی کے اہم واقعات یا ان کی کامیابیاں بیان کرنا نہیں بلکہ ان کی شخصیت کے مختلف پہلووں کو جانچنا اور سمجھنا ہوتا ہے۔ اردو ادب میں یہ روایت خاص طور پر اس وقت پروان چڑھی جب ادیبوں نے معاشرتی، ثقافتی، اور سیاسی مسائل پر اپنی توجہ مرکوز کی اور ادب کو محض تفریح کا ذریعہ نہ سمجھا بلکہ اس کے ذریعے عوامی شعور کی بیداری اور سماجی اصلاح کا عمل شروع کیا۔ اس روایات کے تحت اردو ادب میں کئی اہم شخصیات کی سوانح عمریوں، آپ بیتیوں اور تحقیقی مطالعوں کی صورت میں ان کے فکری سفر، ان کے نظریات، اور ان کے کردار کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ ان تحریروں میں ان افراد کے ذاتی تجربات اور ان کے نظریاتی تصورات کو نہ صرف بیان کیا گیا بلکہ ان کے سوشل، سیاسی اور ثقافتی اثرات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ اردو میں منٹوشناسی کی یہ روایت نہ صرف ان شخصیات کو ایک تاریخ کے طور پر پیش کرتی ہے بلکہ ان کی شخصیت کی پیچیدگیوں، اخلاقی اقدار، اور ان کے اندر موجود تنازعات کو بھی سامنے لاتی ہے۔ اس تنقیدی اور تحقیقی نقطہ نظر سے ان سوانح عمریوں اور آپ بیتیوں کا مطالعہ ہمیں ان شخصیات کی گہرائیوں میں لے جاتا ہے، جہاں ہم ان کے اندر کے فکری تنازعات، ان کے عوامی اور ذاتی کردار کے درمیان تعلقات، اور ان کے معاشرتی اثرات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے ذریعے اردو ادب نے نہ صرف ان شخصیات کی عظمت کو اجاگر کیا بلکہ ان کے منفی پہلووں، کمزوریوں اور معاشرتی ذمہ داریوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جس سے ادب کو حقیقت پسندانہ اور جامع زاویہ نظر فراہم ہوتا ہے۔ اردو میں منٹوشناسی کی یہ روایت نہ صرف ادب کی دنیا میں ایک نیا اضافہ ہے بلکہ اس کے ذریعے ادب نے انسانی شخصیت کی پیچیدگیوں اور اس کے فکری سفر کو ایک نیا تنقیدی جائزہ فراہم کیا ہے، جو ادبی دنیا کے لیے ایک قیمتی ورثہ ہے۔