اردو زبان میں قرآنی محاورات کی ایک منفرد حیثیت ہے، جو نہ صرف زبان کو معنوی وسعت عطا کرتے ہیں بلکہ مذہبی اور ادبی اقدار کو بھی گہرائی فراہم کرتے ہیں۔ یہ محاورات قرآن مجید کے الفاظ، تعبیرات اور اسالیب سے ماخوذ ہیں اور اردو زبان و ادب میں بھرپور انداز میں استعمال ہوتے ہیں۔ قرآنی محاورات عام طور پر عربی سے براہ راست یا ترجمہ کی صورت میں اردو زبان کا حصہ بنے اور ان کا استعمال روزمرہ گفتگو، شاعری، اور نثر میں کثرت سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، “دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی” (النساء: 135) انصاف کے مفہوم کو واضح کرتا ہے، جبکہ “نیکی کر، دریا میں ڈال” صدقہ اور خلوص کی تعلیم دیتی ہے۔ قرآنی محاورات کے استعمال سے اردو زبان میں نہ صرف دینی شعور کی عکاسی ہوتی ہے بلکہ زبان کا وقار بھی بڑھتا ہے۔ یہ محاورات انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں جیسے عدل، صبر، تقویٰ، اور احسان کو جامع اور دلنشین انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اردو ادب میں ان محاورات کے تخلیقی اور فنکارانہ استعمال نے زبان کو ادبی اور روحانی لحاظ سے غنی کیا ہے، جو ان کے مستقل اثر اور اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔