اردو ادب میں خاکہ نگاری کو ایک اہم نثری صنف کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے جو کسی شخصیت کے خدوخال، عادات، اطوار، نفسیاتی کیفیات، فکری رجحانات اور تہذیبی پس منظر کو مزاح، طنز، ہمدردی، محبت، یا تنقید کے پیرائے میں نمایاں کرتی ہے۔ خاکہ نگاری محض سوانح یا سادہ تذکرہ نہیں بلکہ ایک ایسا فنی اظہار ہے جو کسی فرد کی شخصیت کو اس کی تمام تر پیچیدگیوں، تضادات اور نرمیوں سمیت قاری کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ اردو خاکہ نگاری نے بیسویں صدی کے آغاز سے ترقی پائی، اور جلد ہی نثر کی ایک مستقل ادبی صنف کی صورت اختیار کر گئی، جس میں ادبی، سماجی، مذہبی، سیاسی اور ثقافتی شخصیات کو موضوع بنایا گیا۔ اس صنف میں انفرادیت، مشاہدہ، طنز و مزاح، اور اسلوبی خوبیوں کا امتزاج بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔
اردو میں خاکہ نگاری کی ابتدا سوانحی ادب سے ہوئی، تاہم اس کی مکمل ادبی شناخت مولانا محمد حسین آزاد اور سر سید احمد خان کے تحریری نقوش میں دیکھی جا سکتی ہے، لیکن اسے حقیقی فروغ بیسویں صدی کے وسط میں ملا جب رشید احمد صدیقی، ابو الکلام آزاد، مجتبیٰ حسین، کرنل محمد خان، اور ابن انشا جیسے ادیبوں نے اس صنف کو فنی، اسلوبی اور فکری سطح پر نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ رشید احمد صدیقی کی خاکہ نگاری نہایت سادہ، مزاح سے بھرپور، اور انسانی فطرت کی گہری بصیرت پر مبنی ہے۔ ان کے مشاہدے کی گہرائی، زبان کا بانکپن، اور جملوں کی برجستگی نے اردو خاکے کو فنی اعتبار سے نکھار بخشا۔ ان کے خاکوں میں علی گڑھ کا پس منظر، تعلیمی ماحول، ادبی فضا اور شخصیات کا طنز و ظرافت سے بھرپور لیکن محبت آمیز تذکرہ ملتا ہے۔
تنقیدی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اردو خاکہ نگاری کا پہلا نمایاں وصف “شخصیت کا مطالعہ” ہے۔ خاکہ کسی فرد کی ذات کے ان پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے جو عمومی طور پر چھپے رہ جاتے ہیں۔ اس میں فرد کی ذہنی کیفیت، روزمرہ کی حرکات، بول چال کا انداز، اس کی خوش طبعی یا سنجیدگی، اس کی یادداشتیں، فکری جھلکیاں اور سماجی رویے سب کچھ شامل ہوتے ہیں، لیکن اس انداز میں کہ قاری اس شخصیت کو اپنے سامنے جیتا جاگتا محسوس کرتا ہے۔ خاکہ نگار کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ شخصیت کی سچائی کو نمایاں کرے، لیکن اس میں ہنر مندی، نفسیاتی شعور اور فنی ضبط کا لحاظ رکھے تاکہ تحریر یک طرفہ یا مبالغہ آمیز نہ ہو۔
اردو خاکہ نگاری کا دوسرا نمایاں پہلو اس کا اسلوب ہے۔ خاکہ ایک فنی تخلیق ہے، اس میں زبان کا چٹخارہ، جملوں کی برجستگی، محاورات کا استعمال، اور بیانیہ کی روانی نہایت اہم ہوتے ہیں۔ مجتبیٰ حسین، کرنل محمد خان، اور ابن انشا کے ہاں یہ اسلوب نہایت شگفتہ اور زندہ دل نظر آتا ہے۔ مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں زبان کا مزاحیہ پہلو، کرداروں کی غیر معمولی حرکتیں، اور زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات کو دلچسپ پیرائے میں بیان کرنے کی غیر معمولی صلاحیت انہیں دیگر خاکہ نگاروں سے ممتاز کرتی ہے۔
خاکہ نگاری کا ایک اور تنقیدی پہلو یہ ہے کہ اس میں شخصیت کا مطالعہ کرتے ہوئے نہ تو اس کی بے جا تعریف ہونی چاہیے اور نہ ہی غیر ضروری تنقید۔ فنی دیانت، توازن، اور غیر جانبداری اس صنف کی بنیاد ہے۔ خاکہ نگار ایک تماشائی کے بجائے ایک شریکِ تجربہ ہونے کے ناتے فرد کی شخصیت کو اس کی روشنیوں اور سایوں سمیت بیان کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض خاکہ نگاروں نے مزاح کو اس طرح برتا کہ شخصیت کا احترام بھی قائم رہے اور ان کے رویوں کی نزاکت بھی سامنے آ جائے۔
اردو خاکہ نگاری کا ایک منفرد رجحان یہ بھی رہا ہے کہ اس میں معروف شخصیات کے علاوہ عام لوگوں کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ کچھ خاکہ نگاروں نے اپنے استاد، ہم جماعت، نوکر، یا کسی عام فرد کی شخصیت کو اتنی خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ وہ بھی ادبی دنیا میں امر ہو گیا۔ اس طرح اردو خاکہ نگاری نے انسان کو اس کی معاشرتی حیثیت سے ہٹا کر صرف اس کی انفرادیت کی بنیاد پر پرکھنے کا عمل شروع کیا۔
خاکہ نگاری کے تنقیدی مطالعے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس صنف نے اردو نثر کو ایک نئی رنگا رنگی بخشی۔ اس نے نہ صرف طنز و مزاح کی سطح پر اردو زبان کی وسعت کو بڑھایا بلکہ انسانی نفسیات کے لطیف پہلوؤں کو بیان کرنے کا فن بھی دیا۔ یہ صنف ادب میں واقعیت، سچائی، مزاح، حساسیت، ہمدردی اور شعور کی ایک حسین آمیزش ہے۔
تاہم خاکہ نگاری کی موجودہ صورتحال پر تنقیدی نگاہ ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آج کے عہد میں اس صنف کی وہ توجہ نہیں رہی جو ماضی میں تھی۔ موجودہ ادبی فضا میں اگرچہ خودنوشت، سفرنامہ اور سوانح حیات کی طرف زیادہ جھکاؤ ہے، لیکن خاکہ نگاری ایک بار پھر ادبی مراکز، تعلیمی اداروں اور رسائل میں توجہ کا مرکز بن رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی نسل اس صنف کو محض تفریح یا طنز کا ذریعہ نہ سمجھے بلکہ اسے ایک فنی اظہار اور انسانی مشاہدے کی باریک بینی کے طور پر اپنائے۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ اردو خاکہ نگاری صرف ادبی فن نہیں بلکہ انسانی شخصیت کی ایک نفسیاتی، سماجی اور تہذیبی تصویر کشی ہے، جو اردو نثر کو نہ صرف وسعت بلکہ گہرائی بھی عطا کرتی ہے۔ اس کا تنقیدی مطالعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ادب فرد کے سچے عکس کے ذریعے تہذیب کی تصویر بھی بن سکتا ہے، اور یہی اردو خاکہ نگاری کی اصل فنی اور فکری عظمت ہے۔