کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو میں حج کے سفر نامے

اردو ادب میں سفرنامہ نگاری کی روایت بڑی قدیم اور رنگارنگ ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے جب سے حج کا سفر اختیار کیا، اُس وقت سے حج کے سفرنامے اردو نثر کا ایک مستقل اور معتبر حصہ بن گئے۔ حج کا سفر محض جغرافیائی یا جسمانی سفر نہیں ہوتا بلکہ یہ روحانی ارتقا، عقیدت اور خود احتسابی کا سفر بھی ہے۔ اردو کے حج کے سفرنامے اسی روحانی جذبے اور ایمانی واردات کے آئینہ دار ہیں۔ ان تحریروں میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت، عبادت کے لمحات، امتِ مسلمہ کے اتحاد کا احساس اور روحانی سرشاری کے تجربات نہایت دلنشین انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔

اردو میں حج کے ابتدائی سفرنامے انیسویں صدی میں سامنے آئے۔ ان میں سب سے معروف مولوی محسن کاکوروی، سید احمد دہلوی اور نذیر احمد کے زمانے کے مصنفین شامل ہیں جنہوں نے اپنی نثر میں نہ صرف حج کے مناظر بیان کیے بلکہ اسلامی تہذیب، عرب معاشرت اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پر بھی روشنی ڈالی۔ ان ابتدائی تحریروں میں عرب ممالک کے جغرافیہ، رسم و رواج، قافلوں کی مشکلات اور سفر کی صعوبتوں کا تفصیلی ذکر ملتا ہے، جو آج کے قاری کے لیے تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔

بیسویں صدی میں جب ہوائی سفر اور جدید سہولتیں میسر آئیں تو حج کے سفرناموں کا انداز بھی بدل گیا۔ اب مصنفین نے صرف مناظر کی تفصیل پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے روحانی تجربات، احساسات اور مشاہدات کو بھی شامل کیا۔ اس دور کے اہم مصنفین میں اشفاق احمد، عطاءالحق قاسمی، ممتاز مفتی، مولانا محمد الیاس عطّار قادری، قدسیہ بانو، کرنل محمد خان، ڈاکٹر عبدالرؤف اور دیگر نام شامل ہیں جنہوں نے اپنے اپنے انداز میں حج کے روحانی سفر کو بیان کیا۔

ممتاز مفتی کا سفرنامہ ’’لبیک‘‘ اردو ادب میں حج کے سفرناموں کا سنگِ میل سمجھا جاتا ہے۔ یہ محض سفر کی روداد نہیں بلکہ ایک فکری، صوفیانہ اور وجودی تجربہ ہے۔ ممتاز مفتی نے حج کے موقع پر اپنی روحانی کیفیت، اپنے سوالات اور اپنی تلاشِ حقیقت کو نثر میں ڈھالا ہے۔ اسی طرح عطاء الحق قاسمی نے اپنے مخصوص طنزیہ اور مشاہداتی انداز میں حج کے سفر کو پیش کیا، جس میں عقیدت کے ساتھ ساتھ مزاح اور معاشرتی طنز بھی جھلکتا ہے۔ ان کا سفرنامہ نہ صرف مذہبی احساسات کا مظہر ہے بلکہ پاکستانی حاجی کے روزمرہ تجربات کو حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کرتا ہے۔

اسی سلسلے میں مولانا محمد الیاس عطّار قادری کا ’’پہلا حج‘‘ (۱۴۰۰ھ / ۱۹۸۰ء) ایک نہایت روحانی اور تبلیغی رنگ رکھتا ہے۔ اس میں عبادات کے ساتھ ساتھ اصلاحِ نفس اور عشقِ رسول ﷺ کی کیفیات کا تفصیلی بیان ملتا ہے۔ ان کی نثر میں عقیدت، اخلاص اور دینی جذبے کی جھلک نمایاں ہے۔ دوسری جانب خواتین مصنفات نے بھی حج کے تجربے کو اپنے منفرد احساسات کے ساتھ پیش کیا۔ قدسیہ بانو اور دیگر خواتین لکھاریوں نے عورت کی نظر سے حج کے مناظر، جذبات اور عبادات کی کیفیت کو بیان کر کے اردو ادب میں ایک نیا زاویہ پیدا کیا۔

اردو کے حج کے سفرنامے صرف مذہبی تحریریں نہیں بلکہ سماجی و ثقافتی دستاویزات بھی ہیں۔ ان میں مختلف ملکوں کے حاجیوں کی ثقافتی عادات، عرب معاشرے کے بدلتے ہوئے رنگ، پاکستانی حاجیوں کی تنظیمی صورت، اور جدید دور میں حج کے انتظامات کا مفصل تذکرہ موجود ہے۔ بعض سفرنامے طنز و مزاح کے ذریعے حاجیوں کے طرزِ عمل پر روشنی ڈالتے ہیں، جبکہ کچھ مکمل طور پر روحانیت اور تزکیۂ نفس کے بیان سے لبریز ہیں۔

ان سفرناموں کی ادبی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے۔ ان میں اردو نثر کی خوبصورتی، مشاہدے کی باریکی، جذبات کی سچائی اور ایمان کی روشنی جھلکتی ہے۔ بعض مصنفین نے ان تحریروں کو محض عبادتی تاثر تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے ذریعے قاری کو غور و فکر، خود شناسی اور اصلاحِ ذات کا پیغام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے حج کے سفرنامے آج بھی دینی ادب کے ساتھ ساتھ اردو نثر کے اعلیٰ نمونوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ اردو میں حج کے سفرنامے محض مذہبی تحریریں نہیں بلکہ انسانی تجربے، ایمانی وابستگی اور روحانی شعور کی داستانیں ہیں۔ ان میں مسلمان کی تڑپ، محبتِ رسول ﷺ کی جھلک، اور خدا کے قرب کی آرزو زندہ محسوس ہوتی ہے۔ اردو ادب کا یہ باب آج بھی قاری کے دل پر اثر کرتا ہے، کیونکہ اس کے پس منظر میں وہی ابدی جذبہ کارفرما ہے جو صدیوں سے مسلمان کے دل میں موجود ہے — یعنی خدا کی رضا کی تلاش اور اپنے خالق سے قربت کی آرزو۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں