اردو میں تجریدی افسانہ ایک منفرد اور جدید ادبی صنف ہے جو مروجہ حقیقت سے ہٹ کر خیالات، احساسات اور تجزیات کو ایک تجریدی سطح پر پیش کرتی ہے۔ اس صنف کا مقصد روایتی کہانیوں کی بجائے ایک غیر معمولی اور پیچیدہ نوعیت کا اظہار کرنا ہے، جہاں حقیقت کی سرحدیں دھندلا جاتی ہیں اور حقیقت سے زیادہ خیالات، علامات، اور تمثیلات کا استعمال ہوتا ہے۔ تجریدی افسانے میں، کرداروں اور ماحول کا کوئی واضح اور ثابت وجود نہیں ہوتا؛ بلکہ یہ ایک خیالی دنیا میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں، جہاں شعور اور لاشعور کی کشمکش، ذہنی پیچیدگیاں، اور انسانی جذبات کی عکاسی کی جاتی ہے۔ اس صنف کا مقصد نہ صرف کہانی سنانا ہوتا ہے بلکہ زندگی کے گہرے، فلسفیانہ، اور نفسیاتی پہلوؤں کو اجاگر کرنا بھی ہوتا ہے۔ اردو میں تجریدی افسانے کی ابتدا 20ویں صدی کے وسط میں ہوئی، جب جدید ادبی تحریکوں نے نئے تجربات کی جانب قدم بڑھایا اور روایتی افسانہ نگاری سے ہٹ کر تخلیقی زاویے اختیار کیے۔ اس کی اہم خصوصیت ابہام اور علامتوں کا استعمال ہے، جس سے قاری کو گہرے معانی تلاش کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ احمد فراز، عصمت چغتائی، رشید حسن خان اور کرامت علی جیسے افسانہ نگاروں نے اس صنف کو اردو ادب میں متعارف کرایا، اور ان کی کہانیاں انسان کے اندرونی جذبات، نفسیاتی حالتوں اور سماجی مسائل کی عکاسی کرتی ہیں۔ تجریدی افسانہ اردو ادب میں ایک نیا تجربہ ہے، جو قاری کو صرف کہانی تک محدود نہیں رہنے دیتا بلکہ ان کی ذہنی سطح کو نئی راہوں پر سوچنے کی دعوت دیتا ہے، اور یہ ادب کے ایک اہم اور انوکھے تجربے کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔