اردو میں نثری نظم ایک ایسی ادبی صنف کے طور پر ابھری ہے جس نے روایت سے بغاوت کرتے ہوئے نظم کے اظہار کو نئی جہتیں فراہم کیں۔ اس نے اردو شاعری کو عروضی پابندیوں سے آزاد کر کے فکر و اظہار کو وسعت دی، اور اسے عالمی جدید ادب کی روشنی میں ایک نیا شعری پیرایہ عطا کیا۔ نثری نظم کا آغاز اردو میں بیسویں صدی کے وسط میں ہوا، جب مغرب میں ریمبو، بودلیئر، والٹ وٹمن اور پروست جیسے شعرا کی آزاد خیالی اور ساخت شکنی سے متاثر ہو کر اردو شعرا نے بھی نئی راہوں کا انتخاب کیا۔ اگرچہ ابتدا میں اسے نظم ہی تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا، لیکن رفتہ رفتہ نثری نظم نے اردو شاعری میں ایک خودمختار اور مکمل صنف کی حیثیت حاصل کر لی۔
نثری نظم کا بنیادی خمیر داخلی احساس، آزاد تخیل، لسانی تجربہ اور شعوری تجرید میں پیوست ہے۔ اس میں وزن، بحر، قافیہ اور ردیف کی قیود کو ترک کر کے صرف “نثری زبان میں شعری اظہار” پر زور دیا جاتا ہے۔ اس صنف میں بنیادی عنصر “شعریت” ہے، جو خیالات کی ندرت، احساسات کی شدت، منظر کی تجسیم، اور علامتی ساخت سے ابھرتی ہے۔ یہ نظم عام نثر سے اس لیے ممتاز ہے کہ اس میں نثر کی زبان کے ساتھ شاعری کی روح کارفرما ہوتی ہے۔ اس کا اسلوب، صوتیات، علامتیں، اور ایمائیت اسے ایک جمالیاتی فن بناتی ہیں۔
اردو میں نثری نظم کے ابتدائی تجربات ن م راشد، میراجی، شمس الرحمن فاروقی، اور آصف فرخی کے ہاں ملتے ہیں، اگرچہ انہوں نے براہ راست اسے “نثری نظم” کا نام نہیں دیا۔ میراجی کی علامتی اور تجریدی شاعری، جس میں عروضی نظام کی شعوری نفی کی گئی، بعد ازاں نثری نظم کی بنیاد بنی۔ میراجی کے ہاں زبان کا آزاد بہاؤ، علامتوں کی کثافت، داخلی نفسیاتی کرب، اور جنسی اضطراب اردو نثری نظم کے بنیادی اجزاء بنے۔ ان کے بعد محمد علوی، منیر نیازی، افتخار جلیل، خالد احمد، پروین شاکر اور ثمینہ راجہ نے اس صنف میں نئے تجربات کیے اور اردو نثری نظم کو ایک وسیع تر قبولیت ملی۔
نثری نظم کا ارتقاء دراصل جدید انسان کے شعوری اضطراب، لسانی بے چینی، اور تہذیبی شکست و ریخت کا شعری ردعمل ہے۔ جب کلاسیکی نظم اظہارِ عشق، تصوراتی کائنات یا مذہبی وابستگی کے گرد گھومتی رہی، نثری نظم نے فرد کی داخلی کیفیت، سیاسی جبر، سماجی ناہمواری، صنفی امتیاز، شناخت کے بحران، اور زبان کی بے سمتی کو اپنا موضوع بنایا۔ نثری نظم میں ایک گہرے داخلی مکالمے، ایک ذاتی اور کائناتی سطح پر جدو جہد کی جھلک ملتی ہے، جو عام نظم سے مختلف شعری فضا تخلیق کرتی ہے۔ یہاں الفاظ شاعرانہ تجربے سے برآمد ہوتے ہیں، نہ کہ بحر یا وزن کے تابع۔
نثری نظم میں علامت نگاری، تجرید، تجزیہ، اور بعض اوقات “ابہام” کو فنی خوبی کے طور پر اپنایا گیا۔ اس میں “خاکہ” جیسا تاثر پیدا کرنا، اور “منظر” کے بجائے “ماحول” کو شعری انداز میں برتنا زیادہ اہم ہے۔ اسے کسی “کہانی” کے بجائے “کیفیت” کا اظہار کہا جا سکتا ہے۔ نثری نظم میں وقت و مقام کا تصور روایتی معنوں میں نہیں بلکہ داخلی سطح پر تشکیل پاتا ہے، اور یہ داخلی تشکیل ہی اسے ما بعد جدید تناظر میں معنی خیز بناتی ہے۔
نثری نظم کو اگر امکانات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی کئی سطحیں اب بھی دریافت طلب ہیں۔ چونکہ یہ صنف عروض سے آزاد ہے، اس لیے اظہار کے امکانات وسیع تر ہیں۔ جدید دنیا کے نفسیاتی، تہذیبی، سیاسی اور فکری مسائل کو اس صنف کے ذریعے زیادہ مؤثر انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس میں صوتیاتی تجربات، بین المتونیت، شعری نثر اور بین الذہنی تجزیہ کی گنجائش موجود ہے۔ اس صنف کے ذریعے وہ موضوعات بیان کیے جا سکتے ہیں جنہیں غزل یا کلاسیکی نظم کے سانچے میں سمونا مشکل ہوتا ہے، مثلاً جنس، بدن، زبان کی محدودیت، اور انفرادی کرب۔ اسی لیے نثری نظم نوجوان شعرا، خواتین تخلیق کاروں، اور ما بعد جدید فکر رکھنے والوں کے لیے ایک ترجیحی صنف بنتی جا رہی ہے۔
خواتین شعرا نے اس صنف کو نہایت کامیابی سے اپنایا ہے۔ کشور ناہید، فہمیدہ ریاض، ثمینہ راجہ، نصرت زہرا، اور نگہت نسیم نے نثری نظم کے پیرایے میں اپنے داخلی کرب، سماجی ردعمل، اور صنفی تشخص کو شاعرانہ انداز میں پیش کیا۔ ان کی نظموں میں سماجی جبر، نسائی وجود کا شعور، اور انفرادی حسیت کی جھلک ملتی ہے، جو نثری نظم کی وسعتِ اظہار پر دلیل ہے۔
نثری نظم پر تنقید بھی ہوئی، اور کئی روایتی شعرا و نقادوں نے اسے “نثر” کہہ کر رد کر دیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس صنف کو ایک باضابطہ ادبی حیثیت حاصل ہوئی۔ معروف ناقدین جیسے شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر سلیم اختر، اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اسے اردو شاعری کی فکری توسیع قرار دیا۔ گوپی چند نارنگ نے نثری نظم کو اردو شاعری کے مستقبل کا دروازہ کہا کیونکہ اس میں وہ فکری، شعوری اور لسانی امکانات موجود ہیں جو معاصر دنیا کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔
نثری نظم کا سب سے بڑا امکان اس کی لسانی آزادی ہے۔ یہ آزادی اسے ثقافتی زنجیروں سے نکال کر ایک ایسی شاعری بناتی ہے جو تجربے کی نوعیت، قاری کی تعبیر، اور تخلیق کار کے وجدان کی بنیاد پر پروان چڑھتی ہے۔ اس میں کوئی مرکزی بیانیہ نہیں بلکہ متعدد جہات پر بیک وقت سوچا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اسی لیے نثری نظم صرف صنفِ شاعری نہیں بلکہ ایک فکری تحریک بھی ہے، جو اردو زبان میں تخلیقی امکانات کو وسعت دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ اردو میں نثری نظم کا ارتقاء ایک ادبی بغاوت سے شروع ہو کر ایک فکری و جمالیاتی حقیقت تک پہنچا ہے۔ اس نے اردو شاعری کو نئی زبان، نئے موضوعات، نئی تکنیک، اور ایک نئی فکری وسعت عطا کی ہے۔ اس صنف میں ابھی بہت سے تجربات باقی ہیں اور نئی نسل کے شعرا ان امکانات کو دریافت کرنے میں مشغول ہیں۔ اردو میں نثری نظم آج نہ صرف ایک تسلیم شدہ ادبی صنف ہے بلکہ ایک زندہ شعری مظہر ہے جو زبان، وقت اور تہذیب کے ساتھ ہم سفر ہے۔