کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو لسا نيات (تا ريخ و تنقیدکی رو شنی ميں)

اردو لسانیات کا مطالعہ تاریخ اور تنقید کی روشنی میں ایک ایسا علمی، تحقیقی اور فکری موضوع ہے جس نے وقت کے ساتھ نہ صرف اردو زبان کی ساخت، صوتیات، صرف و نحو، اور معانی کو بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع فراہم کیا بلکہ اس نے اردو کی تہذیبی تشکیل، تاریخی ارتقاء، اور ادبی پس منظر کو بھی منکشف کیا۔ لسانیات ایک ایسی سائنسی شاخ ہے جو زبان کے تمام پہلوؤں — صوتیات (Phonetics)، صرفیات (Morphology)، نحویات (Syntax)، معنویات (Semantics)، عملیاتی لسانیات (Pragmatics) — کو منظم طریقے سے سمجھنے کا موقع دیتی ہے۔ اردو میں لسانیات کا باقاعدہ آغاز انیسویں صدی کے وسط میں ہوا، جب یورپی نوآبادیاتی حکومتوں نے ہندوستانی زبانوں کی تدوین، لغت نویسی، اور دستور زبان مرتب کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ اس سلسلے میں سرسید احمد خان، مولوی عبدالحق، اور سر جورج گریرسن جیسے افراد نے زبان کو صرف اظہار کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ تہذیب و ثقافت کا مظہر سمجھ کر اس کا مطالعہ کیا۔

تاریخی اعتبار سے اردو لسانیات کا پس منظر اس حقیقت سے جڑا ہوا ہے کہ اردو ایک مخلوط زبان ہے، جس کے ارتقاء میں عربی، فارسی، ترکی، سنسکرت، برج، کھڑی بولی، پنجابی اور دیگر زبانوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اردو لسانیات کی تاریخ اس حقیقت کی وضاحت کرتی ہے کہ اردو کی بنیاد دراصل ہندوستان کی صدیوں پرانی تہذیبی آمیزش اور سماجی اختلاط پر ہے۔ اس کا ارتقاء کسی ایک مخصوص خطے یا قوم سے منسلک نہیں بلکہ یہ ایک ایسے تنوع کا عکاس ہے جو برصغیر کی مشترکہ تہذیب کا ترجمان ہے۔ لسانیاتی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اردو ایک مسلسل تغیر پذیر زبان رہی ہے، جس نے اپنے ابتدائی دور میں مقامی بولیوں اور فارسی ترکیبوں کے امتزاج سے ایک نئی نحویاتی اور صوتی ساخت قائم کی۔ اس صوتی، صرفی اور نحوی تشکیل پر بعد میں یورپی لسانیات دانوں نے توجہ دی اور اردو زبان کو صوتی اصولوں کے تحت سمجھنے کی کوشش کی۔

لسانی تنقید کے میدان میں اردو نے بیسویں صدی میں اہم پیش رفت کی۔ ڈاکٹر گیان چند جین، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں، ڈاکٹر شوکت سبزواری، ڈاکٹر عبادت بریلوی، اور ڈاکٹر سلیم اختر جیسے محققین نے اردو زبان کے فنی اور لسانیاتی پہلوؤں کو اپنے تجزیاتی مطالعے کا موضوع بنایا۔ ان کے کام میں زبان کی تہذیبی معنویت، صوتیاتی ارتقاء، لفظیات، اسلوبیات، اور بیان کے رموز کی گہری چھان بین ملتی ہے۔ ان محققین نے اردو زبان کے اسلوبیاتی ارتقاء کو شعر و ادب کے تناظر میں دیکھا اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ اردو کے مختلف ادوار — کلاسیکی، جدید، اور مابعد جدید — میں زبان کس طرح سماجی تبدیلیوں، سیاسی حالات، اور فکری رجحانات سے متاثر ہوئی۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور ڈاکٹر جمیل جالبی نے اردو زبان کی تاریخ پر نہایت عالمانہ کام کیا اور اس کی صوتی، صرفی اور لغوی بنیادوں کو سائنسی اسلوب میں پیش کیا۔ جمیل جالبی کی “تاریخِ ادبِ اردو” صرف ادبی تاریخ نہیں بلکہ لسانیاتی شعور کی بھی عکاسی کرتی ہے، جس میں اردو زبان کی ساخت، اسلوبی تغیرات، اور علمی برتاؤ پر تفصیلی گفتگو موجود ہے۔

لسانی تنقید کی ایک اہم جہت ساختیات (Structuralism) اور پس ساختیات (Post-Structuralism) کے نظریات ہیں، جنہوں نے بیسویں صدی کے وسط میں اردو زبان اور ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ساختیاتی نقطۂ نظر سے زبان کو ایک سسٹم کے طور پر دیکھا جاتا ہے جہاں ہر لفظ، ہر صوت، اور ہر علامت اپنی جگہ ایک نظام کا جزو ہوتی ہے۔ سوسئیر (Saussure) کے نظریات کے تحت اردو زبان کا بھی مطالعہ کیا گیا، اور اس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ اردو میں نشانات (Signs)، دلالت (Signification)، اور معانی کا نظام کس طرح تشکیل پاتا ہے۔ جبکہ پس ساختیات نے یہ ثابت کیا کہ معانی جامد نہیں بلکہ سیاق، تناظر، اور قاری کے فہم کے مطابق بدلتے رہتے ہیں، یوں اردو لسانیات کو ایک متحرک فریم ورک کے تحت دیکھنے کی راہ ہموار ہوئی۔

اردو لسانیات میں صرف و نحو کے مسائل، بولیوں اور لہجوں کا فرق، لغات کی تشکیل، املا کے قواعد، اور زبان کی تدریس بھی اہم موضوعات رہے ہیں۔ اردو میں آج بھی مختلف علاقوں میں بولنے کا انداز، لہجہ اور الفاظ کی ترتیب مختلف ہے۔ کراچی، لکھنؤ، دہلی، لاہور، حیدرآباد دکن، بنارس اور دیگر علاقوں کی اردو اپنی صوتیات، الفاظ کے انتخاب، اور نحوی انداز میں مختلف پہلو پیش کرتی ہے۔ ان علاقائی زبانوں اور لہجوں کا مطالعہ اردو لسانیات کو ایک زبردست میدانِ تحقیق فراہم کرتا ہے۔

اردو میں نئی لسانی تحقیق نے ڈیجیٹل عہد میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ کارپس لسانیات (Corpus Linguistics)، مشینی ترجمہ، صوتی شناخت، اور تدریسِ زبان کے سائنسی طریقے اردو لسانیات کو عالمی زبانوں کے تحقیقی دائرے میں شامل کرتے جا رہے ہیں۔ مختلف یونیورسٹیوں میں لسانیات کے تحقیقی مقالے، لغت نویسی، اور اصطلاح سازی کے شعبہ جات قائم ہو چکے ہیں۔ اردو زبان کی معیاری تعلیم کے لیے نصاب سازی اور تلفظ کی درستگی پر بھی سائنسی بنیادوں پر کام جاری ہے۔

نتیجتاً کہا جا سکتا ہے کہ اردو لسانیات محض زبان کے سادہ مطالعے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسا جامع اور علمی عمل ہے جو اردو زبان کی ساخت، معنویت، صوتیات، اور اسلوبی تنوع کو سائنسی اور تاریخی تنقید کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مطالعے کے ذریعے نہ صرف زبان کی تدریس اور تدوین کو بہتر بنایا جا سکتا ہے بلکہ ادب، صحافت، تعلیم، اور سماجی رابطے کے دیگر ذرائع میں بھی زبان کی سوجھ بوجھ اور موثر استعمال ممکن ہو سکتا ہے۔ اردو لسانیات کا یہ سرمایہ آج بھی ترقی پذیر ہے اور آنے والے وقتوں میں زبان، شناخت، تہذیب، اور اظہار کے نئے امکانات روشن کرے گا۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں