Logo

کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

اردو  غزل میں مکالمے کی روایت ، ایک تحقیقی مطالعہ

اردو غزل میں مکالمے کی روایت ایک اہم تحقیقی موضوع ہے، جو اردو شاعری کی فکری و اسلوبیاتی جہات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ مکالمہ دراصل ادب میں بیانیے کی ایک ایسی تکنیک ہے، جس میں دو یا زیادہ کرداروں کے درمیان گفتگو یا خیالات کا تبادلہ پیش کیا جاتا ہے، اور غزل میں یہ روایت روایتی واحد متکلم اندازِ بیان سے ہٹ کر ایک انفرادیت اختیار کرتی ہے۔ اردو غزل کے ابتدائی ادوار میں مکالماتی عناصر محدود تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ایک موثر اسلوبیاتی اور فکری تکنیک کے طور پر ابھرے۔ ولی دکنی، میر تقی میر، اور سودا کی شاعری میں مکالماتی انداز کی جھلکیاں نظر آتی ہیں، جہاں عاشق و معشوق، رقیب، قسمت، اور خود شاعر کے درمیان مکالمے کا رجحان ملتا ہے۔ تاہم، غالب کے ہاں مکالمے کی روایت ایک نئے فکری و فلسفیانہ انداز میں سامنے آئی، جہاں وہ براہِ راست خود سے یا کسی خیالی کردار سے مکالمہ کرتے نظر آتے ہیں۔ بعد ازاں اقبال نے مکالماتی انداز کو مزید وسعت دی، خاص طور پر ان کی شاعری میں خودی اور دیگر فکری عناصر کے درمیان ایک مکالماتی طرز ملتا ہے۔ جدید دور میں فراق، ناصر کاظمی، اور منیر نیازی جیسے شاعروں نے بھی مکالماتی روایت کو وسعت دی، جہاں داخلی و خارجی کیفیات، خودکلامی، اور دیگر کرداروں کے ساتھ مکالماتی طرز میں اشعار کہے گئے۔ اس تحقیقی مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ اردو غزل میں مکالمے کی روایت نہ صرف اظہار کا ایک موثر ذریعہ بنی بلکہ اس نے غزل کے بیانیے کو مزید زندہ، متحرک اور قاری کے لیے قابلِ فہم بنایا، جس سے اردو شاعری میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہوا۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں