اردو ضرب الامثال میں عقائد، سماجی اقدار، مقررات اور دقیانوسی تصورات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ اردو ادب میں ایک اہم پہلو ہے، کیونکہ ضرب الامثال نہ صرف روزمرہ زندگی کی حقیقتوں کو سادہ اور مختصر انداز میں بیان کرتی ہیں، بلکہ ان میں سماجی، ثقافتی اور فکری عوامل بھی چھپے ہوتے ہیں جو کسی قوم کے عقائد، اقدار اور تصورات کی عکاسی کرتے ہیں۔ اردو ضرب الامثال میں اکثر مذہبی، اخلاقی اور سماجی تصورات کو پیش کیا جاتا ہے، جیسے کہ “جو کاشت کرتا ہے وہی فصل کاٹتا ہے” یا “نیکی کر داریا میں ڈال” جیسے مقولے۔ یہ ضرب الامثال ہمارے معاشرتی رویوں اور اخلاقی قدروں کی عکاسی کرتی ہیں۔ جہاں تک عقائد کا تعلق ہے، اردو ضرب الامثال میں کچھ مقولے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ کسی قوم کے عقائد اور روایات کس طرح اس کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرتے ہیں، جیسے کہ تقدیر یا قسمت کے بارے میں کہا جانے والا “جو لکھا تھا وہ ہو کر رہنا تھا”۔ اس کے علاوہ، بعض ضرب الامثال قدیم اور دقیانوسی تصورات کو بھی فروغ دیتی ہیں، جیسے کہ “عورت کا کام گھر کا کام ہے” یا “مرد کو روتا نہیں دیکھنا چاہیے” جو کہ ایک مخصوص سماجی ڈھانچے اور جنسی تقسیم کی عکاسی کرتی ہیں۔