اردو شاعری کی جڑیں براہ راست فارسی ادب سے پیوستہ ہیں۔ جب برصغیر میں فارسی کو درباری، علمی اور تہذیبی زبان کی حیثیت حاصل ہوئی، تو اہلِ ہنر اور شعرا نے اس زبان میں اپنا تخلیقی اظہار شروع کیا۔ فارسی صدیوں تک ہندوستان کی ادبی اور علمی زبان رہی، چنانچہ اردو شعرا کے لیے فارسی محض ایک “غیر ملکی” زبان نہ تھی، بلکہ ان کی تربیت، تہذیب اور فکری وراثت کا حصہ تھی۔ اردو کے بیشتر کلاسیکی شعرا نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز فارسی سے کیا اور بعد ازاں اردو کو اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ان شعرا میں ولی دکنی، میر تقی میر، غالب، ذوق، مومن، اقبال، حسرت موہانی، جوش، اور فیض احمد فیض جیسے بڑے نام شامل ہیں جنہوں نے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری کی اور دونوں میں فنی مہارت، فکری گہرائی اور تخلیقی رس پیدا کیا۔ اس مضمون میں اردو شعرا کی فارسی اور اردو شاعری کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے ہم ان کے فکری رجحانات، اسلوب، زبان، موضوعات اور تاثرات کا جائزہ لیں گے۔
فارسی ایک کلاسیکی، قدیم اور گرامری طور پر سخت زبان ہے، جو فصاحت، بلاغت اور موسیقیت کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ اردو زبان نے فارسی سے نہ صرف الفاظ لیے بلکہ محاورات، استعارات، شعری بحریں اور عروضی نظام بھی اخذ کیا۔ لہٰذا جب ایک شاعر دونوں زبانوں میں لکھتا ہے، تو اس کے اسلوب اور زبان میں نمایاں فرق آتا ہے۔
غالب کی فارسی شاعری کا اسلوب زیادہ فکری، فلسفیانہ اور تصوف پر مبنی ہے، جب کہ اردو میں وہ زیادہ نرم، عاشقانہ اور تہذیبی اظہار کے حامل نظر آتے ہیں۔ ان کی فارسی غزلوں میں تجریدی (abstract) خیالات، کثیف تلمیحات، اور بلند خیالی پائی جاتی ہے، جب کہ اردو میں یہ سب کچھ زیادہ سلیقے اور نرمی سے بیان ہوتا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں:
گفتی کہ فارسی بگو تا بہ سحر نزدیکتر آید
گفتم کہ اردو گفتہام آں ہم اثر دارد
اسی طرح اقبال کی فارسی شاعری زیادہ انقلابی، نظریاتی، اور امتِ مسلمہ کی فکری تشکیل پر مشتمل ہے، جب کہ اردو شاعری میں وہ جذبہ، وطنیت، تصوف اور خودی کے تجربے کو زیادہ ذاتی اور جمالیاتی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کی مشہور فارسی تصنیف “اسرارِ خودی“ اور “رموزِ بیخودی“ میں فلسفیانہ استدلال اور معنوی تہ داری اردو کی نسبت زیادہ گہری ہے۔
فارسی شاعری کا دائرہ زیادہ تر تصوف، عشقِ حقیقی، فلسفہ، کائناتی شعور اور بعض اوقات ملوکیت و اخلاقیات تک محدود رہا، جب کہ اردو شاعری میں ان موضوعات کے ساتھ ساتھ محبتِ مجازی، سماجی حالات، تہذیبی زندگی، عورت، روزمرہ کی جذباتی کیفیتیں اور لوک رنگ زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ اردو زبان کے قریب ہونے کی وجہ سے شعرا نے اپنے تجربات کو زیادہ براہ راست انداز میں اردو میں بیان کیا، جب کہ فارسی میں وہ رمز و کنایہ، تلمیح اور علمی انداز کو اپناتے تھے۔
میر تقی میر کی فارسی شاعری زیادہ روایتی، ادبی اور کلاسیکی فضا لیے ہوئے ہے، جب کہ اردو میں انہوں نے ذاتی جذبات، معاشرتی شکستگی، اور تہذیبی زوال کو بھی اپنا موضوع بنایا۔ فارسی میں وہ “صاحبِ طرز” اور عربی-فارسی تلمیحات سے مزین اشعار کہتے ہیں، جبکہ اردو میں “سوز” اور “اثر” کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔
اگرچہ اردو شاعری کا عروضی نظام فارسی سے ہی آیا ہے، لیکن فارسی میں قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، رباعی اور غزل کا مخصوص رنگ تھا، جب کہ اردو میں غزل نے نمایاں حیثیت حاصل کر لی۔ اردو شعرا نے فارسی کی صنفی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اسے اپنی زبان اور تہذیب میں ڈھالا۔ ولی دکنی نے فارسی بحور اور مضامین کو دکنی اردو میں رائج کیا، جس سے اردو کو پہلی بار بلند ادبی اظہار کا وسیلہ بنایا گیا۔
اقبال کی فارسی مثنویوں میں فلسفہ، انقلاب اور خودی کا تصور بھرپور ہے، جب کہ اردو میں انہوں نے قوم پرستی، عشقِ رسول ﷺ، اور نوجوانوں کی تربیت جیسے مضامین کو نظموں اور غزلوں کے ذریعے بیان کیا۔
اردو شاعری کی ابتدا سے لے کر آج تک فارسی شعری روایات کا اثر ہر دور میں ملتا ہے۔ فارسی کے کلاسیکی شعرا جیسے رومی، سعدی، حافظ، فردوسی اور عمر خیام کے اثرات اردو شعرا کے اسلوب، موضوعات اور طرزِ بیان پر واضح ہیں۔ اردو شعرا نے ان شعرا کی تقلید ہی نہیں کی بلکہ ان سے مکالمہ کیا، ان کے اشعار کی تضمینیں لکھیں، ان کی فکر کو اپنی تہذیبی صورت میں ڈھالا۔
فیض احمد فیض نے فارسی کی شعری روایات کو اردو میں جدید سیاسی شعور اور جمالیات کے ساتھ جوڑا۔ ان کی شاعری میں حافظ کی غزل کی نرمی، سعدی کی اخلاقیات، اور رومی کی روحانیت کا عکس نمایاں نظر آتا ہے، مگر اردو میں وہ زیادہ زمینی اور انسان دوست لہجہ اختیار کرتے ہیں۔
آج کے دور میں اردو شعرا کا فارسی میں لکھنا اگرچہ کم ہو چکا ہے، مگر ان کی تربیت، علمی مزاج، اور شعری ذوق میں فارسی کا عکس اب بھی موجود ہے۔ فارسی شاعری ایک بین الاقوامی اور کلاسیکی ورثہ بن چکی ہے، جبکہ اردو شاعری نے قومی، ثقافتی اور عوامی رجحانات کے ساتھ گہرا رشتہ استوار کر لیا ہے۔ جدید اردو شاعری میں فارسی کے اثرات اگرچہ بالواسطہ ہو گئے ہیں، مگر اس کی زبان، عروض، تلمیحات، اور فکری گہرائی آج بھی اردو شاعر کی تربیت کا حصہ ہیں۔
اردو شعرا کی فارسی اور اردو شاعری کا تقابلی مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں زبانوں میں ان کے اظہار کا رنگ، اسلوب، اور فکری جہتیں ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہیں، مگر ان میں ایک گہرا رشتہ بھی موجود ہے۔ فارسی شاعری نے اردو شعرا کو فکری بلندی، علامتی اظہار، عروضی نظام، اور تہذیبی شعور عطا کیا، جبکہ اردو نے ان ہی شعرا کو اپنے تجربات کو زیادہ قریب، براہ راست اور تہذیبی لحاظ سے ہم آہنگ انداز میں بیان کرنے کی آزادی دی۔ ان دونوں زبانوں میں لکھنے والے شعرا ہماری ادبی تاریخ کے ان پل ہیں جو ماضی، حال اور تہذیب کو آپس میں جوڑتے ہیں۔ یہ دو لسانی تخلیقی سفر اردو ادب کو نہ صرف وسعت عطا کرتا ہے بلکہ اس کی گہرائی اور فکری اثاثے کو لازوال بناتا ہے۔