اردو شاعری میں معاشیات و اقتصادیات کے موضوعات کو نہایت گہرائی اور گیرائی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ شاعروں نے معاشی مسائل، غربت، امیر و غریب کے درمیان فرق، اور سرمایہ دارانہ نظام کے اثرات کو اپنے کلام میں بڑی مہارت سے بیان کیا ہے۔ یہ شاعری صرف معاشی حقائق تک محدود نہیں رہتی، بلکہ اس میں انسانی جذبات، سماجی ناانصافی، اور اخلاقی اقدار کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ مثلاً، فیض احمد فیض نے سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال اور مزدوروں کے دکھ کو اپنے اشعار میں بڑی درد مندی سے پیش کیا ہے۔ ان کے مشہور شعر “یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر، وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں” میں معاشی ناانصافی اور سماجی تبدیلی کی تڑپ واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔اسی طرح، علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں معاشی خودمختاری اور قومی اقتصادیات کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ ان کا پیغام ہے کہ قوموں کی ترقی کا دارومدار معاشی مضبوطی اور خود انحصاری پر ہوتا ہے۔ اقبال کے نزدیک، معاشی غلامی قوموں کو ذہنی اور روحانی طور پر بھی کمزور کر دیتی ہے۔ ان کی نظم “مسجد قرطبہ” میں یہ تصور واضح ہے کہ معاشی طاقت ہی قوموں کو عروج پر پہنچاتی ہے۔