اردو سفرنامہ نگاری کی روایت ایک بھرپور ادبی صنف کی صورت میں ہمارے سامنے آتی ہے جس میں صرف جغرافیائی مقامات کی تفصیل ہی نہیں بلکہ تہذیب، ثقافت، نفسیات، مشاہدات اور خودنگاری کے رنگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ اردو ادب میں سفرنامہ نگاری کی بنیاد ابتدائی طور پر سیر و سیاحت، حج و زیارت اور تجارتی و تعلیمی اسفار کے بیانات سے رکھی گئی، لیکن بیسویں صدی میں اسے ایک باقاعدہ ادبی صنف کی حیثیت حاصل ہوئی۔ سر سید احمد خان کے سفرنامہ یورپ سے لے کر مستنصر حسین تارڑ، ابن انشاء، جمیل الدین عالی اور رفیق دواروی تک، اردو سفرنامہ نگاروں نے اس صنف میں رنگا رنگ اسلوب، ذاتی تجربات، مقامی تہذیب و ثقافت اور طنز و مزاح کو شامل کر کے اسے ایک دل چسپ اور فکر انگیز صورت بخشی۔ اردو سفرناموں میں مشاہدے کی باریکی، منظر نگاری، بین الثقافتی تقابل، اور سیاسی و سماجی شعور کو فنی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ بعض سفرنامے محض معلوماتی نوعیت کے ہوتے ہیں، جبکہ دیگر فکری و فلسفیانہ گہرائی سے مزین ہوتے ہیں۔ سفرنامہ نگاری کی یہ روایت اب نئی جہات اختیار کر رہی ہے جس میں مہاجرت، شناخت، عالمی سیاست اور ثقافتی امتزاج جیسے جدید موضوعات شامل ہو گئے ہیں۔ یوں اردو سفرنامہ اب محض سیر کا بیان نہیں بلکہ فرد اور دنیا کے تعلق کا ادبی و فکری اظہار بن چکا ہے جس کا تنقیدی جائزہ ہمیں نہ صرف اس صنف کی وسعتوں سے روشناس کراتا ہے بلکہ اردو ادب کی بین الاقوامی سطح پر فکری پیش رفت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔