اردو زبان کی ابتدا اور اس کے لسانی ارتقاء پر صدیوں سے متنوع آرا پیش کی جاتی رہی ہیں۔ عمومی طور پر اردو زبان کو آریائی (Indo-Aryan) زبانوں کی ایک شاخ مانا گیا ہے، مگر کچھ ماہرینِ لسانیات اور محققین نے اردو کی ابتدا کے حوالے سے غیر آریائی نظریات بھی پیش کیے ہیں۔ یہ نظریات محض لسانی نہیں بلکہ تہذیبی، تاریخی اور تمدنی عوامل سے جڑے ہوئے ہیں، جنہوں نے زبان کے ارتقائی سفر کو مختلف زاویوں سے متاثر کیا۔ اس مضمون میں ہم اردو زبان کے غیر آریائی نظریات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیں گے تاکہ ان کا سائنسی و تاریخی بنیادوں پر تجزیہ کیا جا سکے۔
غیر آریائی نظریات کا بنیادی تصور یہ ہے کہ اردو زبان صرف آریائی زبانوں، خصوصاً سنسکرت، پراکرت یا اپ بھرنش کی پیداوار نہیں بلکہ اس کی بنیادوں میں دیگر زبانوں کا بھی اثر شامل ہے، جیسے کہ دراوڑی، سامی، ترک، منگولی، ایرانی اور یہاں تک کہ عربی و فارسی عناصر۔ یہ زبان ایک تہذیبی اختلاط کی پیداوار سمجھی جاتی ہے، جس میں مختلف قوموں، نسلوں، اور زبانوں کے تصادم اور امتزاج نے اہم کردار ادا کیا۔
اردو زبان کے ساختیاتی اور ذخیرۂ الفاظ کے تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اردو میں سنسکرتی اور آریائی عناصر کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی، ترکی، اور بعض مقامی دراوڑی زبانوں کے اثرات بھی موجود ہیں۔ لسانیاتی ماہرین جیسے ڈاکٹر گیارسن اور ڈاکٹر تھامسن نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اردو صرف ایک آریائی لسانی شاخ نہیں، بلکہ اس میں سامی اور افرو-ایشیائی زبانوں کے اثرات بھی ملتے ہیں۔
مثال کے طور پر اردو کے ابتدائی الفاظ میں کچھ ایسے الفاظ بھی ملتے ہیں جو سنسکرتی ماخذ نہیں رکھتے، جیسے “انّا”، “کپڑا”، “بالٹی”، “کمہار” وغیرہ جن کے لسانی روابط دراوڑی یا دیگر غیر آریائی زبانوں سے جوڑے گئے ہیں۔ اسی طرح اردو کی صوتیات میں کچھ ایسی آوازیں ہیں جو آریائی زبانوں میں کم پائی جاتی ہیں لیکن دراوڑی یا ترکی زبانوں میں عام ہیں۔
اردو کے ذخیرہ الفاظ میں عربی زبان کا نمایاں اثر پایا جاتا ہے، جو براہِ راست یا فارسی کے ذریعے اردو میں داخل ہوا۔ عربی زبان سامی خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور اس کا اردو زبان پر اثر صرف الفاظ تک محدود نہیں، بلکہ اصطلاحات، مذہبی فکر، اور اظہار کے اسلوب تک پہنچتا ہے۔ اردو میں ایسے الفاظ جیسے “انصاف”، “عدالت”، “نماز”، “زکوٰۃ” وغیرہ عربی سے آئے، جنہوں نے نہ صرف زبان کی ساخت بلکہ اس کی فکری سمت کو بھی متاثر کیا۔
مغلیہ سلطنت کے دور میں اردو زبان پر ترک و منگولی زبانوں کا غیر معمولی اثر پڑا۔ مغل دربار میں استعمال ہونے والی اصطلاحات، حربی و سیاسی الفاظ، اور خطاب کے انداز اردو میں داخل ہوئے۔ “خان”، “بیگ”، “سپاہ”، “قلعہ”، “نوکر”، “جنگ” جیسے الفاظ اردو زبان کی لغت میں ترک و منگولی اثرات کی مثالیں ہیں۔
فارسی زبان نے اردو کی نحو، اسلوب اور شاعری کو جتنی گہرائی سے متاثر کیا ہے، وہ کسی اور زبان نے نہیں کیا۔ فارسی اگرچہ آریائی خاندان سے تعلق رکھتی ہے، لیکن اس کا طرزِ اظہار، تشبیہات، استعارے اور شعری ہیئت اردو میں ایک نئی تہذیبی جمالیات لے کر آئے۔ دراوڑی اثرات زیادہ تر عوامی زبان، ضرب الامثال، اور علاقائی بولیوں کے ذریعے اردو میں داخل ہوئے۔
غیر آریائی نظریات بعض محققین کے نزدیک اردو زبان کی بین الاقوامی و بین تہذیبی جڑوں کو نمایاں کرتے ہیں، لیکن کچھ ناقدین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اردو بنیادی طور پر آریائی خاندان کی زبان ہے اور باقی زبانوں کے اثرات محض بالواسطہ یا ثانوی نوعیت کے ہیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر گیان چند جین اور ڈاکٹر مسعود حسین خاں جیسے محققین نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اردو زبان کی ساخت، صرف و نحو، اور بنیادی الفاظ آریائی زبانوں سے جڑے ہوئے ہیں، البتہ ثقافتی اور تمدنی تعامل نے دیگر زبانوں کو اردو میں جذب کر لیا ہے۔
تاہم، جدید لسانیات اس خیال کو تسلیم کرتی ہے کہ کوئی بھی زبان خالص نہیں ہوتی، اور وہ مختلف ادوار میں مختلف زبانوں سے اثر لیتی ہے۔ لہٰذا غیر آریائی نظریات اردو زبان کی گوناگوں اور ہمہ جہت ساخت کی عکاسی کرتے ہیں، جو اس کی وسعت، لچک اور جمالیاتی دائرہ وسیع کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
اردو زبان کے غیر آریائی نظریات ہمیں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ زبانیں محض نسلی یا لسانی اصولوں پر تشکیل نہیں پاتیں بلکہ وہ تہذیبی تعامل، سیاسی اثرات، اور معاشرتی میل جول کا بھی نتیجہ ہوتی ہیں۔ اردو زبان کی خوبصورتی اور وسعت اسی میں ہے کہ اس نے عربی، فارسی، ترکی، دراوڑی، اور مقامی ہندی عناصر کو اپنی ساخت میں اس طرح ضم کیا کہ ایک نئی تہذیبی شناخت ابھر کر سامنے آئی۔ اس لیے غیر آریائی نظریات اردو زبان کی تاریخی گہرائی اور لسانی پیچیدگی کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں، اور ان کے تحقیقی و تنقیدی جائزے سے اردو کے ارتقاء کی ایک ہمہ گیر تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔